Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Hud : 123
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَیْهِ١ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠ ۧ
وَلِلّٰهِ
: اور اللہ کے پاس
غَيْبُ
: غیب
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَاِلَيْهِ
: اور اسی کی طرف
يُرْجَعُ
: باز گشت
الْاَمْرُ
: کام
كُلُّهٗ
: تمام
فَاعْبُدْهُ
: سو اس کی عبادت کرو
وَتَوَكَّلْ
: اور بھروسہ کرو
عَلَيْهِ
: اس پر
وَمَا
: اور نہیں
رَبُّكَ
: تمہارا رب
بِغَافِلٍ
: غافل (بےخبر)
عَمَّا
: اس سے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
اور اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی چھپی باتوں کا علم ہے اور سارے کام اس کے آگے رجوع ہوتے ہیں پس اس کی بندگی میں لگا رہ اور اس پر بھروسہ کر ، تیرا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ لوگ کر رہے ہیں
پر دئہ غیب میں کیا ہے ؟ اللہ کو سب معلوم ہے سب کام اس کی طرف لوٹنے ہیں ۔ 152 پر دئہ غیب میں کیا چھپا ہے ؟ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور سارے کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ پھر ت میں اور تمہارے ساتھیوں کو کیا کرنا چاہئے ” بس اس کی عبادت میں لگے رہو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ “ معادین و مخالفین سے اپنے بدلے خود ہی لینے کے لئے نہ تیار رہو بلکہ حکم الٰہی کا انتظار کرو وہ تم کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اور تمہارے مخالفین ومعاندین کو بھی اور دونوں فریقوں کے اعمال سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہے۔ اس آیت پر سورة ہود کا اختتام ہو رہا ہے اور اس کے بعد ایک اور رسول یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع کیا جارہا ہے لیکن اس سے پہلے ایک بار پوری سورة ہود کے خلاصہ کو ایک نظر دیکھتے چلیں۔ سورة ہود پر ایک مختصر اور مجموعی نظر یہ سورت بھی من جملہ ان سورتوں کے ہے جن میں گزشتہ دعوتوں کا وقائع سے استشہاد کیا گیا ہے۔ اگرچہ سورة الاعراف میں بھی اس طرف اشارات کئے جا چکے ہیں اور اس سورت کے اندر بیان کئے گئے انبیائے کرام کے تذکار کے تحت مختصر سرگزشت بھی ہر نبی و رسول (علیہ السلام) کے ساتھ بیان کی گئی ہے تاہم خیال ہوا کہ یہاں مزید وضاحت کردی جائے جو مجموعی طور پر سارے مضامین پر محیط ہے اور گزشتہ مفسرین کرام کی محنت سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاسکے خصوصاً وہ مفسرین کرام جن کا تعلق اس بیسیویں صدی سے ہے تاکہ آئندہ جہاں کہیں ان انبیائے کرام یا ان مضامین کا ذکر آئے جو اس سورت میں باین کئے گئے ہیں تو قارئین کرام کا ذہن فہم و تدبیر کے لئے مستعد رہے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ ہم یہ بات پہلے سجھ چکے ہیں تاکہ بار بار بیان کی زحمت سے حتی الامکان بچا جاسکے اور جب بھی کوئی ایسا مضمون آئے تو اس سورت کی طرف مراجعت کرلی جائے۔ یاد رہے کہ کسی تحریر کا فائدہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور حتی الامکان شنیدہ قصوں اور کہانیوں سے خلای الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے۔ ۔ 1 قرآن نے تذکیر و موغطت کے لئے جو باتیں بطور دلائل کے اختیار کی ہیں اور جنہیں وہ جا بجا جج ، براہین ، بینات اور بصائر سے تعبیر کرتا ہے ، ان میں ایک نمایاں استدلال ایام و وقائع کا استدلال ہے۔ اس نے جہاں کہیں گزتہ قوموں کے حالات بیان کئے ہیں وہاں یہ بات بھی واضح کردی کہ اس بیان سے اس کا مقصود کیا ہے ؟ جیسا کہ اسی سورت کی آیت (120) میں گزر چکا ہے اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ مقصود یہ نہیں ہے کہ تورات کی طرح دنیا کی تاریخ بیان کی جائے بلکہ کچھ باتیں ہیں جن کا وہ دلوں میں اذعان پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ سرگزشتیں اس کی دلیلیں ہیں ، حجتیں ہیں ، براہین ہیں۔ پس سمجھ لینا چاہئے کہ کیونکہ یہ سرگزشتیں دلیلیں ہیں۔ بات بالکل صاف تھی کیونکہ خود قرآن نے کھول کھول کر ہر جگہ بتا دی ہے لیکن منطقی استدلال کے انہماک نے مفسروں کو سمجھنے کی مہلت نہ دی۔ ۔ 2 اس سلسلے میں سب سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں : اولاً : قرآن کہتا ہے کہ کائنات ہستی کے جس گوشے پر نظر ڈالو گے ، تمہیں ایک حقیقت ابھری ہوئی دکھائی دے گی ، بشرطیکہ دیکھنے سے انکار نہ کرو ، وہ کیا ہے ؟ قوانین فطرت کی وحدت ینی یہاں ہر جگہ ایک ہی قانون ایک ہی طرح پر کام کر رہا ہے ، کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اپنے قانون خلقت و فعل میں دوسروں سے ذرا بھی الگ ہو۔ بلاشبہ بھیس بہت سے ہوگئے ہیں اور نام بھی یکساں نہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے اور جو نہی سامنے کے پردے ہٹاتے ہو اصلیت کی بےلاگ وحدت آکھڑی ہوتی ہے۔ مثلاً تم کہتے ہو کہ حیوان کے لئے موت وحیات ہے۔ پھولوں کے لئے کھلنا اور مرجھا جانا ، پتھروں کے لئے بننا اور پامال ہونا ہے۔ اجزاء کے لئے ملنا اور بکھر جانا ہے ، بھیس بہت سے ہوگئے مگر کیا صورتیں بھی بہت ہوئیں ؟ نام کئی ہوگئے مگر کیا حقیقت بھی متعدد ہوئی ؟ وہی قانون جو حیوانات میں موت وحیات تھا ، نباتات میں کھلنا اور مرجھانا ہوا ، جمادات میں بننا اور پامال ہونا ، اجزاء میں ملنا اور بکھرنا الفاظ بدلتے جائو ، عمنی نہیں بدل سکتے ! عاراتنا شتا و حسنک واحد وکل الی دک الجمال یشیرا وہ کہتا ہے جب کائنات ہستی کے ہر گوشے میں وحدت قانون کی بنیاد اصل کام کر رہی ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اعمال انسانی کا گوشہ اس سے باہر ہو ؟ اور وہاں بھی کوئی قانون کام نہ کر رہا ہو ؟ اور وہ وہی اور ویسا ہی نہ ہو جیسے طرح یہاں کا ہر گوشہ دوسرے گوشے سے مربوط ہے یہاں بھی وہی قانون کام کر رہا ہے جو عالم ماوی کے تمام گوشوں میں کار فرما ہے اور یہاں کے بھی وہی احکام و نتائج ہیں جو دوسرے گوشوں میں نظر آ رہے ہیں۔ مثلاً اگر عالم مادی میں تمہیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں بھی کوئی بات آگ کی طرح ہو سکتی ہے اور جب وہ ظہور میں آجائے تو گرمی ہی نکلے گی ، ٹھنڈک نہیں نکل سکتی یعنی مادیات کے خواص کی طرح معنویات کے بھی خواص ہیں اور خواص و نتائج کا ایک ہی عالمگیر قانون یکساں طور پر دونوں جگہ کام کر رہا ہے۔ ثانیاً وہ کہتا ہے جس طرح یہاں ہر بات کے لئے فطرت کے مقررہ قوانین ہیں اسی طرح قوموں اور جماتعوں کی سعادت و شقاوت اور حیات و ممات کا بھی ایک قانون ہوا اور جس طرح فطرت کے تمام قانون یکساں ہیں ، عالمگیر ہیں ، غیر مبدل ہیں اسی طرح یہ قوانین بھی ہمیشہ ایک ہی طرح رہے ہیں اور ہمیشہ ایک ہی طرح کے احکام و نتائج ظاہر ہے ، خواہ کسی ملک اور کسی عہد میں پیش آئے یہ نہیں ہو سکتا کہ اب سے ہزار برس پہلے تو سنکھیا کا خاصا ہلاکت رہا ہو اور اب زندگی ہوجائے پس جو کچھ ماضی میں پیش آچکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے۔ اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی کیونکہ فطرت کے قوانین میں تبدیلی نہیں۔ اس نے جا بجا اس قانون کو ” سنۃ اللہ “ سے تعبیر کیا ہے۔ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجدلسنۃ اللہ تبدیلاً (33 : 62) جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لئے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قانون کا دستور یہی رہا ہے) اور اللہ کی سنت میں تم کبھی رد و بدل نہیں پائو گے۔ (فھل ینظرون الا سنۃ الاولین ! فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً ولن تجد لسنۃ اللہ تحویلاً (25 : 43) پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ؟ کیا اس بات کی کہ جو کچھ اگلے لوگوں کے لئے سنت رہ چکی ہے ان کے لئے بھی ظہور میں آجائے ؟ تو یاد رکھو ، تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پائو گے اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔ سنۃ من قدارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلاً (17 : 77) (اے پیغمبر ! ) تجھ سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ان کے لئے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں ! قرآن کا یہ استدلال فی الحقیقت طبیعت انسان کا وجدانی اذعان ہے انسان کی ذہنی فطرت کا مطالعہ کرو ، تم دیکھو گے کہ وہ حوادث سے بالطبع متاثر ہتوی ہے اور اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ یہاں ایک مرتبہ کا حادثہ ایک ہی مرتبہ کا حادثہ نہیں ہے ، خواص و نتائج دائمی ہیں یعنی جو بات یہاں ایک مرتبہ ظہور میں آتی ہے وہ ہمیشہ ظہور میں آئے گی یا ہمیشہ ظہور میں آسکتی ہے اور جس چیز کا جو خاصہ ایک مرتبہ ظاہر ہوا وہی خاصہ ہمیشہ ظہور میں آئے گا۔ چناچہ بچوں کو دیکھو کس طرح یہ وجدانی علم ان کے اندر بول رہا ہے ؟ ایک بچہ پہلی مرتبہ آگ میں انگلی ڈالتا ہے اور انگلی جلنے لگتی ہے۔ پھر جب کبھی آگ اس کے سامنے آتی ہے تو خود بخود ہاتھ کھینچ لیتا ہے کیوں ؟ اسی لئے کہ اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ جس چیز نے ایک مرتبہ جلایا وہ ہمیشہ جلائے گی یہ اعتقاد کہ ” آگ ہمیشہ جلاتی ہے “ اسے صرف اتنی بات سے حاصل ہوگیا کہ ” آگ نے ایک مرتبہ جلایا تھا “ طبیعت انسانی کا یہی وجدانی تاثر ہے جس نے ہمارے ذہن میں استقراء کا اعتقاد پیدا کیا یعنی جزئیات کا تجربہ کرنا اور اس کے ذریعے سے کلیات تک پہنچنا۔ اب ہمارے تمام علوم و معارف کا سنگ بنیاد یہی ہے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے اگر تم وجدانی طور پر یہ بات محسوس کرتے ہو کہ خواص و نتائج کا تسلسل و اجراء ایک حقیقت ہے یعنی اگر ایک چیز سے بار بار ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا ہے تو یہ اس کا خاصہ ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں تو پھر تم کیسے انکار کردیتے ہو کہ اعمال انسانی کے لئے یہ حقیقت معطل ہوگئی اور یہاں ایسا ہونا ضروری نہیں ؟ اگر تم کہتے ہو کہ فلاں بات سے ایسا نتیجہ ضرور نکلے گا کیونکہ بار بار ایسا ہی ہوچکا ہے ؟ تو پھر اس بات سے کیوں انکار کردیتے ہو کہ فلاں قسم کے اعمال کا نتیجہ یقینا ہلاکت ہے کیونکہ بار بار ایسا ہوچکا ہے چناچہ یہی بات ہے کہ وہ جا بجا کہتا ہے تم ہی دنیا میں پہلی قوم نہیں ہو تم سے پہلے بھی بیشمار قومیں اسی زمین میں گزر چکی ہیں۔ ان کی بھی آبادیاں تھیں ، قوتیں اور شوکتیں تھیں ، سربفلک عمارتیں تھیں ، فکر و عمل کی سرگرمیاں تھیں۔ پس دنیا کی سیر کرو ، گزری ہوئی سرگزشتیں سنو ، مٹی ہوئی نشانیوں کا کھوج لگائو اور پھر دیکھو سعادت و شقاوت کے قانون کا کیسا عمل درآمد رہ چکا ہے ؟ اور اگر ہمیشہ ایسا ہی ہوچکا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تمہارے لئے اپنا قانون ہستی معطل کر دے گا ؟ یا اس طرح بدل دے گا کہ جو چیز کل تک سنکھاو رہ چکی ہے ، تمہارے لئے شہد ہوجائے ؟ قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین ؟ (3 : 137) تم سے پہلے بھی (دنیا میں خدا کے) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں۔ پس ملکوں کی سیرو کرو پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جنہوں نے خدا کی نشانیاں جھٹلائیں تھیں ؟ او لم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم وکانوا اشدمنھم قوۃ (35 : 44) کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ، ان لوگوں کا کیسا انجام ہوچکا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو ان لوگوں سے قوت میں کہیں زیادہ تھے ؟ قرآن کی موغطت کا ایک خاص دائرہ ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے ، اسی کے اندر رہ کر کہتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس استدلال کو بھی اس کے اندر رہ کر دیکھیں اس سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں۔ تاہم ایک بات ایسی ہے جو بغیر کسی تکلیف کے خودبخود سامنے آجاتی ہے اور ہم اپنے ذہن کو اس طرح جانے سے روک نہیں سکتے یعنی قرآن کے طرز استدلال نے ایک زیادہ عام حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضرور کردیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ کا صحیح استعمال کیا ہونا چاہئے ؟ قرآن کی ان تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ گزشتہ قوموں کا مطالعہ اس لئے رنا چاہئے کہ آئندہ کے لئے صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ اس باب میں علم و نظر کی کاوشیں جس قدر بھی سراغ لگا کسی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہی ہے۔ تاریخ میں ابن خلدون پہلا شخص تھا جس نے تاریخ کسی روشنی میں دیکھنا چاہا اور اب فلسفہ تاریخ کی ساری بیا دیں اسی اصل پر چنی گئی ہیں۔ البتہ اس وقت تک معاملہ آئندہ حلات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اگر بڑھتا تو ہم تاریخ کی ہر داستان میں مستقبل کی ایک نئی داستان پڑھ لیا کرتے۔ ۔ 3 اب یہ دو اصل سامنے رکھ کر قرآن کے ان تمام مقامات کا مطالعہ کرو جہاں گزشتہ ایام و وقائع کا ذکر کیا گیا ہے۔ تم دیکھو گے کہ ہر جگہ یہی استدلال کام کر رہا ہے اور جو نہی یہ بات سامنے رکھ لی جائے تمام وجود و روابط واضح ہوجاتے ہیں۔ البتہ ہر مقام پر ایک ہی طرح کا بیان نہیں ہے اور نہ ہی ایک پہلو پر زور دیا گیا ہے کسی مقام پر جمع کردی ہیں اور ان سب سے بحیثیت مجموعی استدلال کیا ہے تاکہ استدلال کے تمام پہلو آشکار ہوجائیں۔ ۔ 4 چناچہ یہ سورت بھی من جملہ ان سورتوں کے ہے جن میں آخری سورت اختیار کی گئی ہے اور اس لئے اس استدلال کے جامع و مفصل مقامات میں سے ہے وہ کہتا ہے گزرے ہوئے عہدوں کی طرف مڑ کے دیکھو ، تم دیکھو گے کہ دنیا کی کوئی آبادی ایسی نہیں ہے جہاں ایک خاص طرح کا معاملہ پیش نہ آیا ہو اور خاص طرح کے نتائج پیدا نہ ہوئے ہوں۔ ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ قوموں میں میں ایک خاص طرح کی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ ہمیشہ ہوا ہے کہ انہوں نے خاص طرح کی صدائیں بلند کیں ، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان خاص طرح کے معاملات پیش آئے اور پھر ہمیشہ ایسا ہوا کہ ان کا خاتمہ ایک خاص طرح کے نتیجہ پر ضرور ہوا اور اس نتیجے نے تمام قضیہ کا فیصلہ کردیا۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ یہ سارا معاملہ اپنی ساری باتوں میں کچھ اس طرح یکساں اور ہم رنگ واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی حقیقت ہے جو بار بار ابھرتی اور اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے یا ایک ہی زنجیر ہے جس کی مختلف کڑیاں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئی ہیں اور اس کی کوئی کڑی دوسری کڑی سے الگ نہیں۔ پھر کیا یہ بات کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی طرح کی بات پیش آئی اور ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا۔ اس یقین کے لئے کافی نہیں کہ یہ ملکوں اور قوموں کی سعادت و شقاوت کا ایک الٰہی قانون ہے اور چونکہ ہمیشہ کام کرتا رہا ہے اس لئے اب بھی کام کرے گا۔ ۔ 5 اب ان تمام سرگزشتوں پر نظر ڈالو جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں اور اعراف میں گزر چکی ہیں اور آئندہ سورتوں میں بھی آئیں گی۔ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت سے شروع ہوتی ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر ختم کردی جاتی ہیں۔ غور کرو کس طرح ان تمام دعوتوں کے ظہور میں ، اعلانات میں ، تذکیر و موغطت میں ، احوال و ظروف میں ، رد و قبول میں ، نوعیت و حیثیت میں اور پھر آخری نتیجے میں کامل یکسانیت پائی جاتی ہے ؟ اور کس طرح ان کی ہم آہنگی کے تمام نقطے صاف صاف ابھرے ہوئے ہیں ؟ ساتھ ہی کس طرح قدم قدم پر بتلایا جا رہا ہے کہ ہدایت وحی کے ظہور کے عام قوانین کیا کیا ہیں ؟ اور کس طرح دعوت وحی کا ہر چہرہ اپنے خال و خط میں قطعی اور آشکارا نظر آ را ہے کہ شک و اشتباہ کی پرچھائیں بھی اسے چھونے کی جرأت نہیں کرسکتیں۔ ۔ 6 سورة الاعراف کے ایک نوٹ میں اشارات گزر چکے ہیں اور اس سورت میں ہر دعوت کے وقائع کا خلاصہ بالمقابل نوٹوں میں پڑھ چکے ہیں۔ ان سب پر مکرر نظر ڈالو اور غور کرو۔ جتنے رسول پیدا ہوئے ، وہ کیسے وقتوں میں پیدا ہوئے ؟ اور کن لوگوں میں پیدا ہوئے ؟ ان کی پکار کیا تھی ؟ اور پکار کی نوعیت کیا تھی ؟ ان کی دلیلیں کیا تھیں جن پر انہوں نے زور دیا ؟ ان کا طریقہ کار کیا تھا جس پر وہ برابر کار بند رہے ؟ انہوں نے اپنے قدم جہاں ٹکائے تھے ، وہ جگہ کونسی تھی ؟ اور سہارے کے لئے جس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ، وہ کون تھا ؟ پھر ان میں اور ان کی قوموں میں جو معاملات پیش آئے وہ کس قسم کے تھے ؟ اور ان معاملات میں ان کا جو قول و فعل رہا وہ کس قسم کا تھا ؟ تم دیکھو گے کہ ان ساری باتوں میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصویر تھا اور ہر دعوت دوسری دعوت کا عکس تھی۔ کسی بات میں بھی تم ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے۔ سب اسی حال میں پیدا ہوئے کہ دنیوی طاقتوں اور حکمرانیوں سے کچھ نہیں کھتے تھے۔ سب کا ظہور ایسے ہی وقتوں میں ہوا جب خدا پرستی اور نیک عمل کی روشنی بجھ چکی تھی۔ سب انہی قوموں میں پیدا ہوئے جن قوموں کو انہوں نے مخاطب کیا تھا ، سب کی زبانوں سے ایک ہی پکار نکلی۔ سب نے ایک ہی طر پر لوگوں کو بلایا۔ سب نے کہا اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، سب نے کہا ظلم و بدعملی سے باز آ جائو۔ اس کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ سب نے کہا ہماری جدوجہد ادائے فرض ہے ، مزدوری کی طلب نہیں۔ سب نے کہا ہمارے پاس علم و یقین ہے۔ ہم تمہیں ظن و جہل سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ سب نے کہا ہمارا دعویٰ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایمان و نیک عمل کے نتائج کی بشارت دینے والے ہیں ، انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کردینے الے ہیں۔ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ سب نے کہا تمہارا بھروسا اپنی طاقتوں پر ہے۔ ہمارا پروردگار عالم ایک ہے۔ تم جو کچھ کرسکتے ہو کر دیکھو ، ہم اپنے کام سے باز آنے والے نہیں۔ سب نے کہا اگر مانتے نہیں تو کم از کم حق کے مقابلے میں سرکشی کرنا چھوڑ دو کیونکہ سرکشی کا نتیجہ عذاب ہے اور پھر سب نے کہا تمہاری راہ تمہارے لئے ہے ، ہماری راہ ہمارے لئے۔ فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں ، تم بیگ انتظار کرو۔ پھر ان قوموں کی طرف نظر اٹھائو جن میں ان تمام دعوتوں کا ظہور ہوا تھا۔ کس طرح ہر قوم بھی یہاں اپنے طرز عمل میں ٹھیک ٹھیک دوسری قوم کی شبیہ ہے ؟ اور کس طرح گمراہی کا چہرہ ہمیشہ ایک ہی طرح کا رہا ہے جس طرح ہدایت کا چہرہ ایک ہی طرح کا رہا ہے ؟ غور کرو کوئی بات بھی ایسی دکھائی دیتی ہے جس میں ظلم و فساد کی ایک نمود ظلم و فساد کی دوسری نمود سے ہم رنگ نہ رہی ؟ بسب نے اپنی اپنی باری وہی سب کچھ کیا جو ان میں سے کسی ایک نے کیا تھا۔ سب نے دعوت سے انکار کیا۔ سب نے دعوت کی ہنسی اڑائی۔ سب نے دلیلوں سے منہ موڑا۔ سب نے روشنوں سے آنکھیں بند کرلیں۔ سب سرکشی اور گھمنڈ کی چال چلے۔ سب نے جبر و تشدد سے راہ پر روکنی چاہی ، سب نے موغطت و دلائل کا جواب ظلم وتعدی سے دیا۔ سب کی زبانوں سے ایک ہی طرح کی صدائیں نکلیں ، سب کے اعراض و انکار کا مزاج ایک ہی طرح کا مزاج رہا اور پھر سب کو غرور و طغیان نے آخرت وقت تک اس کی مہلت نہ دی کہ روشنی و تاریکی میں امتیاز کرتے ! پھر اگر انہیں مانا تو کن لوگوں نے مانا اور کتنوں نے مانا ؟ تو یہاں بھی دعوت کا معاملہ دوسری دعوت کے معاملہ سے بالکل ہم آہنگ رہا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ بےنوائوں اور درماندوں نے قبول کیا اور سرداروں اور رئیسوں نے مقادمت کی۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ جنہوں نے مانا وہ تھوڑے تھے ، جنہوں نے انکار کیا وہ بہت تھے …… پھر دیکھو نتیجہ بھی کس طرح ہمیشہ ایک ہی رہا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس ایک کے خلاف ہوا ہو ؟ ہیشہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کیا گیا اور ہمیشہ فیصلہ یہی ہوا کہ مومنوں نے نجات پائی ، سرکشوں کے لئے ہلاکت ہوئی۔ یہ لوگ اس معاملے کا ایک قدرتی خاصا تھا اور خاصہ کبھی بدل نہیں سکتا۔ یہ آگ کے لئے گرمی تھی ، برف کے لئے ٹھنڈک تھی ، سنکھیا کے لئے ہلاکت تھی اور آگ بھی جب کبھی سلگے گی ، گرمی ہی نکلے گی ، برف جب کبھی جمے گی ، ٹھنڈک ہی ہوگی ، سنکھیا جب کبھی کھائی جائے گی ہلاکت ہی لائے گی۔ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً ۔ 7 قرآن کے اس استدلال کی ہم نے جو کچھ تریح کی ہے ، یہ کوئی دور کا مفسرانہ استنباط نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے صاف صاف الفاظ میں یہ ساری باتیں واضح کردی ہیں ، ضرورت صرف تدبر و بصیرت کی ہے۔ قرآن کے ان بیشمار مقامات اک مطالعہ کرو ، جہاں گزشتہ رسولوں یا گزشتہ قوموں کی الگ الگ سرگزشتیں نہیں بیان کی ہیں بلکہ محض اجمالی اشارہ کردیا ہے اور پھر یکے بعد دیگرے ان عبرتوں پر توجہ دلائی ہے جو ان سب کی سرگزشتوں سے مجموعی طور پر نکلتی ہیں۔ مثلاً سورة ابراہیم کی آیت (9) میں فرمایا : کیا ان قوموں کی خبریں تم تک نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ؟ پھر ان قوموں کی طرف اشارہ کیا ہے ” قوم نوح ، قوم عاد ، قوم ثمود) اور وہ قومیں جو ان کے بعد ظہور میں آئیں اور جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ “ پھر اس کے بعد ان سب کے ایام و وقائع کی متفقہ اور مشترکہ عبرتیں بیان کی ہیں اور صاف طور پر واضح کردیا ہے کہ تمام رسولوں کی صدائیں ایک ہی طرح کی رہیں اور تمام قوموں کے انکار و سرکشی کا عنوان بھی ایک ہی رہا۔ پھر جو نتیجہ پیش آیا ، وہ بھی سب کے لئے یکساں تھا اور ایک ہی تھا فاوحی الیھم ربھم لنھلکن الظالمین و لنسکنتکم الارض من بعدھم ذلک لمن خاف مقامی فخاف و عید (14 : 14) ۔ 8 عربی میں ایسے واقعات کو جو بڑے اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں اور قومی روایات کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ فلاں واقعہ کا دن مثلاً یوم بدر ، یوم احد ، یوم قادسیہ اور اسی سے قومی معرکوں کے لئے ” ایام “ کی تعبیر پیدا ہوئی ہے چونکہ فیصلہ نتائج کے یہ دن جو تمام قوتوں کو پیش آئے اللہ کے قانون حق کے نفاذ کے دن تھے اور حق و باطل کی معرکہ آرائی تھی۔ اس لئے قرآن نے انہیں ” ایام اللہ “ سے تعبیر کیا ہے ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور ، وذکرھم با یام اللہ ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور (14 : 5) ۔ 9 اس سورت میں بیان قصص کے بعد فرمایا ہے وجآئک فی ھذہ الحق وموعظۃ و ذکری للمومنین (11 : 120) ان سرگزشتوں نے تم پر حقیقت کھول دی اور سرتاپا موعظت و تذکیر ہیں نیز بیشمار مقامات میں تصریح کی کہ ان سرگزشتوں میں حقیقت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ، بڑی بڑی دلیلیں ہیں تو اب غور کرو ” ایام اللہ “ کے استدلال سے کس طرح حقائق وحی کی تمام مہمات واضح ہوجاتی ہیں ؟ اور کس طرح ہر حقیقت کے لئے موعظت و تذکیر مل جاتی ہے ؟ تشریح کا یہ محل نہیں مقصود اشارات ہیں تاکہ تمہارے سامنے تدبر کی راہیں خواد بخود کھل جائیں مثلاً بناء استدلال معاملات کی وجہد اور ان کا عالمگیر تسلسل ہے تو اب غور کرو ، ہر وحدت کس طرح ہر گوشہ میں علم و یقین کا اجالا پیدا کر رہی ہے ؟ اولاً : وحدت البعاث۔ یعنی معلوم ہوگیا ، ایک خاص معاملے کے لحاظ سے تمام ملکوں اور قوموں کی حالت یکساں رہی ہے۔ کوئی ملک و قوم ہو لیکن سراغ ملتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا ہوئے جنہوں نے ابناء جنس کو ایک خاص طرح کی تعلیم دی۔ ثانیاً : وحدت دعوت۔ یعنی یہ تعلیم اگرچہ مختلف وقتوں ، مختلف قوموں ، مختلف ملکوں ، مختلف پیرایوں ، مختلف زبانوں میں دی گئی لیکن ان اختلافات سے تعلیم مختلف نہیں ہوگئی ، وہ ہمیشہ ایک ہی رہی۔ گویا ایک ہی پیغام تھا جو کسی نے بہت سے پیامبروں کو دے کر بھیج دیا ہو اور زبانیں بہت سی ہوگئی ہوں مگر بات ایک ہی رہی ہو۔ ثالثاً : وحدت تذکیر و موغطت یعنی تمام دعوتوں کی صرف تعلیم ہی یکساں نہیں رہی ، بلکہ تذکیر و موغطت کے اصول بھی ہمیشہ ایک ہی ہے۔ رابعاً : وحدت شئون و وقائع۔ یعنی اگرچہ زمانے مختلف ہوئے ، ملک مختلف ہوئے ، قومیں مختلف ہوئیں ، احوال و ظروف مختلف ہوئے ، مگر جو معاملات پیش آئے وہ اپنی نوعیت میں ہمیشہ ایک ہی طرح کے ہوئے۔ خامساً : وحدت تصدیق و اناکر ، یعنی دعوت کے ماننے نہ ماننے کے لحاظ سے بھی حالت ہمیشہ یکساں رہی ہے۔ سادساً : وحدت ہدایت و ضلالت فکر ، یعنی ہمیشہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی اور نہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی۔ جنہوں نے مانا ہمیشہ ایک ہی طرح پر مانا اور جنہوں نے نہ مانا ایک ہی طرح پر نہ مانا ، حتی کہ تصدیق و یقین کی جتنی صدائیں اٹھیں ، ہمیشہ ایک ہی طرح کی اٹھیں اور انکار و شک کی جتنی باتیں کی گئیں ہمیشہ ایک ہی طرح کی گئیں۔ سابعاً : وحدت ظہور نتائج ، یعنی پھر نتیجہ بھی ہمیشہ ایک ہی نکلا۔ ایک سے دو نہ ہوا۔ قرآن کہتا ہے جب صورت حال یہ ہے تو کیا ایسی باتیں اصلیت سے خالی ہو سکتی ہیں ؟ کیا ان کی قدامت ، ان کی عالمگیری ، ان کا دائمی تسلسل ، ان کا غیر منقطع اعادہ ، ان کی بےداغ وحدت ، ان کی فکری صداقت کا اعلان نہیں کر رہی ؟ مالکم کیف تحکمون۔ پس معلوم ہوا یہاں کی تمام فطری اور عالمگیر حقیقتوں کی طرح ہدایت وحی کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ ظہور میں آئی ایمان اور عمل صالح کے قانون کی بھی ایک حقیقت ہے جس کی ہمیشہ تعلیم دی گئی ۔ ہدایت اور ضلالت کی کشمکش کی بھی ایک حقیبقت ہے جو ہمیشہ نمودار ہوئی۔ تصدیق رسل کے نتائج کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ ظہور میں آئے اور انکار و سرکشی کے نتائج بھی دنیا کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کیونکہ ان میں کبھی تغیر نہیں ہوا۔ ۔ 10 اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن نے اگرچہ یہاں اور دیگر مقامات میں چند خاص خاص دعوتوں اور قوموں ہی کا ذکر کیا ہے لیکن اس کا دعویٰ عام ہے اور اسی پر استدلال مبنی ہے اس نے جا بجا یہ بات واضح کردی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور جمعیت بشری کا عالمگیر واقعہ ہے اور کوئی قوم نہیں جس میں اللہ کے کسی رسول کا ظہور نہ ہوا ہو۔ نیز یہ کہ بیشمار قوتیں دنیا میں گزر چکی ہیں جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ چناچہ سورة یونس کی آیت (47) میں گزر چکا ہے : ولکل امۃ رسول فاذا جآء رسولھم قضی بینھم بالقسط و ھم لا یظلمون اور دوسرے مقامات میں فرمایا : انما انت منذر ولکل قوم ھاد (13 : 7) ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولاً ، ان عبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت (16 : 36) انا ارسلنک بالحق بشیراً و نذیراً و ان من امۃ الاخلا فیھا نذیر (35 : 24) الم یاتکم نباء والذین من قبلکم قوم نوح و عاد وثمود الذین من بعدھم لایعلمھم الا اللہ (14 : 9) لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تصریح بھی کردی ہے کہ قرآن میں تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا گیا ، صرف چند کا ذکر کیا گیا ہے : ولقد ارسلنا رسلاً من قبلک منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک۔ (40 : 78) اور (اے پیغمبر ! ) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول مبعوث کئے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سنائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سنائے۔ یہ ظاہر ہے کہ قومیں بیشمار گزر چکی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حسب تصریح قران ، ہر قوم میں دعوت کا ظہور ہوا ہے پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ بیشمار قومیں اور بیشمار دعوتیں ہوئیں ، جن میں سے صرف چند ہی کا قرآن نے ذکر کیا ، باقی کا نہیں کیا۔ قرآن نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ قرآن کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے بلکہ صرف تذکیر و موغطت کے لئے تھا اور اس قدر کافی تھا کہ چند دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کردی جائیں اور باقی کے لئے کہہ دیا جائے کہ ان کا حال بھی انہی پر قیاس کرلو۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں اس کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے جا بجا اس طرح کے تغیرات پائے جاتے ہیں کہ پچھلے قرنوں میں ایسا ہوا۔ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا۔ پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا۔ پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے۔ البتہ جہاں کہیں تخصیص کے ساتھ ذکر کیا ہے ، وہاں صرف چند قوموں ہی کی سرگزشت بیان کی ہے ، جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام و وقائع کا نمونہ سمجھی جائیں اور ان سے اندازہ کرلیا جائے کہ اس بارہ میں تمام اقوام عالم کی روئدادیں کیسی رہ چکی ہیں ؟ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ کیوں خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیا گیا جو ایک خاص خطہ ارضی میں گزر چکی تھیں دوسرے خطوں کی اقوام میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا ؟ تو اس کے وجوہ بھی بالکل واضح ہیں ، اگر تھوڑی سی وقت نظر کام میں لائی جائے یہ ظاہر ہے کہ ایام و وقائع کے ذکر سے مقصود بعض مقاصد کے لئے استشہاد تھا اور یہ استشہاد جب ہی موثر ہو سکتا تھا کہ جن ایام و وقائع کا ذکر کیا جائے ان کے وقوع سے مخاطب بیخبر نہ ہوں۔ کم از کم ان کی بھنک کانوں میں پڑچکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اپنے پاس کے آدمیوں سے حال پوچھ سکتے ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ لوگ کہہ دیتے پہلے ان وقائع کا وقوع ثابت کرو پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا اور اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اب دیکھو ، قرآن نے جن ایام و وقائع کا ذکر کیا ہے وہ تمام تر کن خطوں میں واقع ہوئے تھے ؟ یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں ؟ یہ تمام وقائع یا تو خودعرب میں ہوئے ہیں یا سر زمین دجلہ و فرات میں یا پھر فلسطین و مصر میں اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے۔ تجارتی قافلوں کی شاہراہوں سے باہم دگر پیوستہ تھے۔ آمد و رفت کے علائق کا قدیمی سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی و لسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ جیسا کہ آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا۔ پس قرآن نے انہی خطوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی وسیع خط رہ چکا ہے دوسرے خطوں سے تعرض نہیں کیا کیونکہ مخاطبین کے لئے ان خطوں کا ذکر ان کی شب و روز کی باتوں کا ذکر تھا اور وہ جھٹلانے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ عرب خود ان کا ملک تھا ، عراق سے ان کے تعلقات تھے ، فلسطین کے کھنڈروں پر سے ہر سال گزرتے ہوتے ، مصر ان کے تجارتی قافلوں کی منڈی تھی۔ ان ملکوں کا نام سننا گویا اپنے چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ لینا تھا۔ پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا ، ان کے ناموں سے بھی وہ نا آشنا نہ تھے۔ قوم تبع اور اصحاب اخد ود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن عرب میں ہے۔ عاد وثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کی حدود میں تھیں۔ قبیلہ مدینہ بالکل عرب کے پڑوس میں تھا۔ قوم لوط کے کھنڈر ان میں سے سڑنکاوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ سر زمین دجلہ و فرات کی قوموں اور ان کی روایتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہو سکتے تھے۔ مصر میں گو مصر کے فرعون اب نہیں رہے تھے لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ فراعنہ کے نام ان کے لئے اجنبی نام نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایام وقائع کے بیان و استدلال میں جا بجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے جیسے ایک جانی بوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثلاً جا بجا فرمایا : الم یا تکم نبوا الذین من قبلکم (14 : 9) جو قومیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں کیا تم ان کی خبریں نہیں پہنچ چکی ہیں ؟ مثلاً جا بجا اس طرح کی تعبیرات پائو گے : او لم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم ؟ (35 : 44) کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے پیھل قوموں کا کیسا انجام ہوچکا ہے ؟ کیونکہ واقعہ تو یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے ، یعنی ہر موسم میں تجارت کے لئے نکلتے تھے اور اثناء سفر میں کتنی اجڑی ہوئی بستیاں ، مٹتے ہوئے نشان اور سنسان کھنڈر ان کی نظروں سے گزرتے تھے بلکہ بسا اوقات انہی میں منزل کرتے اور انہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے اور پھر جابجا اس طرح کی بھی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم سے کچھ دور نہیں کہ بعد کی وجہ سے بالکل بیخبر رہے ہو اور یہ بھی کہا یا ہے کہ کیا علماء بنی اسرائیل سے یہ سرگزشتیں تم نے نہیں سنیں ؟ اور اگر بیخبر ہو تو علم والوں سے یعنی علماء اہل کتاب سے دریافت کرلو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں۔ اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطرفا کی تصریح بھی کردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان و وقائع میں قصداً یہ بات محلوظ رکھی گئی ہے کہ سر زمین عرب اور اس کے اطراف و جوانب ہی کے واقع ہوں مثلاً سورة احقاف کی آیت (27) میں قوم عاد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ولقد اھلکنا ماحولکم من القری وصرفنا الایات لعلھم یرجعون۔ البتہ یہ ظاہر و معلوم ہے کہ ان واقعات کی تفصیلات سے لوگ نا آشنا تھے اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی کانوں میں صرف بھنک پڑچکی تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ معاملہ کس طرح پیش آیا اور صحیح سرگزشت کیا ہے ؟ نہ صرف عرب میں بلکہ ان خطوں میں بھی جہاں وہ پیش آئے تھے۔ جن وقائع کا ذکر تورات میں موجود تھا ان کی بھی بعض حقیقتیں محرف ہوگئی تھیں یا بھلا دی گئیں تھیں اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چکی ہے۔ پس قرآن نے ان کی حقیقت ٹھیک ٹھیک واضح کردی۔ ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوگیا۔ بعض وقائع کی نسبت تصریح کردی کہ اس سے باشندگان عرب بالکل نا آشنا تھے ، یعنی نام تو سن لیا تھا لیکن اس کی یہ تفصیلات اور تصریح کردی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں اور نہ تیری قوم کو۔ جدید اثری تحقیقات اور اقوام متذکرہ قرآن کریم پھر فہم و تدبیر کا ایک اور نقطہ بھی ہے اور اس طرف بھی اشارہ کردینا ضروری ہے۔ قرآن نے جن خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے۔ دنیا کو ان کی قدیم تاریخ بہت کم معلوم تھی اور خود عرب اور عرب نسل کی ابتدائی سرگزشتیں بھی پر دئہ خفا میں مستور تھیں ، لیکن اٹھارویں صدی سے آثار قدیمہ کی تحقیقات کا نیا سلسلہ شروع ہوا ، پھر انیسویں صدی میں نئے نئے پردے اٹھے اور اب بیسیویں صدی کے اثری انکشافات روز بروز ایک خاص رخ پر جا رہے ہیں ان سب سے عرب ، عراق ، فلسطین ، شام اور مصر کی قدیم قوموں اور تمدنوں کے جو حالات منکشف ہوئے ہیں انہوں نے ان خطوں کی قدیم تاریخ کو بالکل ایک نئی شکل دے دی ہے اور روز بروز نئی نئی حقیقتیں ابھرتی جاتی ہیں سب سے زیادہ عجیب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ عربی نسل اور عربی زبان کے صرف اتنے ہی معنی ہیں جتنے آج تک سمجھے گئے ہیں بلکہ یہ قوموں اور نسلوں کی ایک نہایت قدیم اور وسیع داستان ہے اور وہ دنیا کے ابتدائی تمدنوں میں عظیم الشان حصہ لے چکے ہیں۔ ۔ 1 ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عربی زبان اور اس کی ابتدائی شکلوں کے بولنے والوں کو ایک خاص نسل تسلیم کرلیا جائے تو یہ دراصل بہت سے گروہوں اور قبیلوں کا ایک مجموعہ تھا اور عرب ، فلسطین ، شام ، مصر اور عراق کے خطوں میں پھیلا ہوا تھا۔ اس نے دنیا کے ابتدائی تمدن کی تعمیر میں بڑے بڑے حصے لئے۔ ان ملکو کی وہ تمام قدیم قومیں جو آج تک ایک دوسرے سے بالکل الگ سمجھی جاتی تھیں مثلاً اشوری ، سریانی ، فینیقی ، مصری ، آرامی وغیرہم فی الحقیقت الگ نہ تھیں اور عربی زبان کا ابتدائی مواد اور عربی رسم الخط کے ابتدائی نقوش ان سب میں مشترک تھے۔ حتیٰ کہ انہی گروہوں نے مصر کے تخت عظمت و جبروت پر عرصہ تک شہنشاہی کی اور اپنی زبان وقت کی تمام متمدن قوموں کو مستعار دے دی۔ چناچہ دارا کے کتبوں اور مصر کے ہیلو غلیقی نقوش میں عربی الفاظ آج تک پڑھے جاسکتے ہیں اور یہ بات تو ایک تاریخی حقیقت کی طرح مان لی گئی ہے کہ یونانیوں نے فن کتابت کا پہلا سبق انہی اقوام سے حاصل کیا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ اس سلسلہ میں کیا کیا انکشافات ہونے الے ہیں ؟ تاہم جس قدر انکشافات ہوچکے ہیں ان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے یعنی ایک زمانے میں یہ تمام خطے ایک خاص نسل کے عروج پو انشعاب کے مختلف میدان تھے اور یہی نسل عربی قبائل کی ابتدائی نسل تھی۔ پس اگر قران نے صرف انہی خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے تو کوئی دوسری قوم اس دائرہ میں داخل نہیں ہو سکتی ہے تو بہت ممکن ہے اس کی علت اس سے کہیں زیادہ گہری ہو جس قدر اس وقت تک ہم سمجھتے رہے ہیں اس سلسلے میں چار باتیں نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہیں۔ اولاً : جن اقوام کا ذکر کیا گیا ہے ، ان کی خصوصیت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ بعض سر زمین حجاز کے قرب و جوار میں گزری تھیں اور بعض سے اہل کتاب واقف تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ کوئی گہری بات ہے ، کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قومیں اصلاً یک ہی نسلی حلقہ کی ہیں حتی کہ اگر مصریوں کا ذکر کیا گیا ہے تو مصری بھی اس میں داخل ہیں۔ ثانیاً : ان انکشافات کی رشونی میں ایک اور مسئلہ بھی بالکل صاف ہوجاتا ہے۔ قرآن نے جہاں کہیں ترتیب ظہور کے ساتھ دعوتوں کا ذکر کیا ہے وہاں قوم نوح کے بعد قوم عاد اور عاد کے بعد قوم ثمود نمایاں ہوئی ہیں اور ان تینوں اقوام کو ایک دوسرے کا جانشین کہا ہے ۔ چناچہ سورة اعراف کی آیت 69 میں ہے کہ حضرت ہود نے اپنی قوم سے کہا ، اللہ کی یہ نعمت یاد کرو کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد اس کا جانشین بنایا اور آیت (74) میں ہے کہ اس طرح صالح نے فرمایا تم قوم عاد کے بعد اس کے جانشین بنائے گئے۔ چونکہ ان تینوں قوموں کا جغرافاکئی محل ایک دوسرے سے الگ تھا۔ اس لئے یہ بات واضح نہیں ہوتی تھی کہ اس خطاب کا صحیح مطلب کیا ہے ؟ لیکن اب بالکل واضح ہوگئی اور ان توجیہوں کی ضرورت نہ رہی جو مفسرین نے اختیار کی ہیں۔ ثالثاً : اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرآن نے ہر جگہ یہ تذکرہ حضرت نوح (علیہ السلام) ہی سے کیوں شروع کیا ہے ؟ اس کی متعدد وجوہات آئی تھیں لیکن ان انکشافات کی روشنی نے ایک نیا پہلو واضح کردیا ہے ، یعنی حضرت نوح کی دعوت غالباً اس قدم نسل میں پہلی دعوت تھی اور چونکہ پہلی دعوت تھی اس لئے ناگزیر تھا کہ اس کی دعوتوں کا تذکرہ اسی سے شروع ہو ! رابعاً : تورات کی بناء پر سامی نسلوں اور زبانوں کی جو تقسیم کی گئی تھی اور جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے علماء انساب و السنہ کے نزدیک بنیادی تقسیم رہی ہے ، اب متزلزل ہو رہی ہے اور معلوم ہوتا ہے از سر نونئی تقسی میں کرنی پڑیں گی ولتعلمن نباہ بعد حین (38 : 88) ۔ 2 اس سورت کی تصریحات میں ایک معاملہ اور تشریح طلب رہ گیا ہے اور ضروری ہے کہ اس طرف بھی اشارہ کردیا جائے۔ قرآن نے جس طرح دوسری قوموں کے عذاب کا ذکر کیا ہے ، اسی طرح قوم نوح کے عذاب کا بھی ذکر کیا ہے اور اگر دوسری قوموں کا غذاب صرف انہی قوموں کے لئے تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم نوح کا عذاب یعنی عالمگیر طوفان تصور کیا جائے لیکن چونکہ تورات کی کتاب پیدائش میں اس طرح کی تصریحات موجود ہیں کہ طوفان عام تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں کا ایسا ہی اعتقاد رہا ہے ، اس لئے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا اور اس طرح کی تفسری کی جانے لگی جو طوفان کے عموم پر مبنی تھی۔ بہرحال دو باتیں یاد رکھنی چائیں : ایک یہ کہ قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے طوفان نوح عام ثابت ہوتا ہو۔ دوسری یہ کہ تورات کے بقیہ اجزاء کے بارے میں کچھ بھی کہا جائے لیکن موجودہ زمانے میں علم و تحقیق کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہے کہ کتاب پیدائش لائق اعتماد نہیں خصوصاً اس کا ابتدائی حصہ ۔ ۔ 3 انیسویں صدی کی اثری تحققایت نے ایک نیا سوا بھی پیدا کردیا ہے ، یعنی تورات اور قرآن میں حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی جو سرگزشتیں بیان کی گیء ہیں مصر کے تاریخی آثار میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا حتیٰ کہ بنی اسرائیل کے توطن مصر اور خروج کا پورا واقعہ اثرایت مصر کی تاریخ میں ایک غیر معلوم واقعہ ہے۔ دنیا کی کسی پرانی قوم نے اپنی تاریخ کی کتاب و حفاظت کا ایسا انتظام نہیں کیا جیسا کہ مصریوں نے کیا تھا جس وقت تک پیپرس (قدیم مصری کاغذ) ایجاد نہیں ہوا تھا ، شاہی محلوں ، مندروں اور مقبروں کی دیواروں پر عہد کے حالات مسلسل نقش کئے جاتے رہے اور جب پیپرس رائج ہوگیا تو باقاعدہ دفاتر مدون ہونے لگے۔ علاوہ بریں ہر بادشاہ اور امیر کی وفات کے بعد اس کی نعش حنوط (ممی) کر کے اس کے خاص مقبرہ میں رکھی جاتی تھی اور نعش کے ساتھ اس کی زندگی کے وقائع بھی رکھ دیئے جاتے تھے۔ اب یہ تمام آثار روشنی میں آگئے ہیں اور ان کی معلومات نے ایک مرتب تاریخ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ان معلومات نے ہمیں پانچ ہزار برس پیشتر کے واقعات تک پہنچا دیا ہے بعد کے واقعات کے لئے یونانی نوشتے موجود ہیں دونوں یکجا کردیئے جائیں تو یہ تین ہزار سال قبل از مسیح سے لے کر عہد سکندریہ تک کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ اس تمام عرصے میں اکتیس شاہی خاندانوں نے مصر پر حکومت کی۔ آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا تھا ، جس کے بعد 332 قبل از مسیح میں سکندر اعظم کا تسلط قائم ہوا۔ ان اکتیس خاندانوں کے اکثر افراد روشنی میں آگئے ہیں اور ان کے ناموں کی فہرست مرتب کرلی گئی ہے۔ علماء آثار کہتے ہیں کہ حضرت یوسف کا معاملہ ایک نہایت غیر معمولی نوعیت کا معاملہ تھا پھر ان کے خاندان کا مصر آنا اور بس جانا اور حضرت موسیٰ کا ظہور اور فرعون سے مقابلہ تمام تر ایسے واقعات ہیں جو نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ صرف تھا کہ آثار مصر میں ان کا ذکر آتا لیکن کسی طرح کا تذکرہ بھی نہیں ملتا۔ تو رات کے سنین کے مطابق حضرت یوسف کا زمانہ مصر کے ہیکس (عمالقہ) فرمانروائوں کا زمانہ ہے اور حضرت موسیٰ کا زمانہ بیسویں حکمران خاندان کا زمانہ ہونا چاہئے جس میں ریمیسیس سوم سے لے کر ریمیسیس یازدھم تک کے فراعنہ گزرے ہیں لیکن ان تمام بادشاہوں کے جس قدر حالات معلوم ہوئے ہیں ان میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ملتا جو حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی سرگزشتوں کی خبر دیتا ہو اس لئے بیسویں صدی کے علمائے تاریخ کا عام رجحان اس طرف ہے کہ دونوں واقعوں کی تاریخی حیثیت قابل تسلیم نہیں کیا آثار مصر کا سکوت اس کے لئے کافی ہے کہ اسے تاریخ کی منفی شہادت تسلیم کرلیا جائے ؟ اور کیا فی الحقیقت آثار مصر میں ان واقعات کے لئے کافی ہے کہ اسے تاریخ کی منفی شہادت تسلیم کرلیا جائے ؟ اور کیا فی الحقیقت آثار مصر میں ان واقعات کے لئے کوئی روشنی نہیں ؟ یہ سوالات جتنے ضروری ہیں اتنا ہی ان کے جواب کتاب و سنت کے اصل موضوع سے زیادہ دور ہیں م اور یہ علمائے تاریخ ہی کا کام ہے کہ اس کی مزید تحقیق کریں۔ انشاء اللہ جوئندہ یا بندہ ہوتا ہے۔
Top