Urwatul-Wusqaa - Hud : 32
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰنُوْحُ : اے نوح قَدْ جٰدَلْتَنَا : تونے جھگڑا کیا ہم سے فَاَكْثَرْتَ : سو بہت جِدَالَنَا : ہم سے جھگڑا کیا فَاْتِنَا : پس لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : وہ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے (جمع)
ان لوگوں نے کہا اے نوح ! تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑ چکا ، اگر تو سچا ہے تو جس بات کا وعدہ کیا ہے وہ ہمیں لا دکھا
قوم کے لوگوں نے کہا آپ نے ہم سے بہت جھگڑا کیا اب وہ عذاب ہم پر لے آ ، اگر تو سچا ہے ؟ 47 ؎ قوم کے سرداروں نے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ایک جھگڑا قرار دیا اور آپ کے لائے ہوئے دلائل و مواعظ و غور و کفر کرنے کی ذرا فکر نہ کی بلکہ فکر کرنے سے انکار کردیا اور یہاں تک سر کشی کی کہ وہ خود عذاب الٰہی کے ظہورکا مطالبہ کرنے لگے اور بر ملا کہنے لگے کہ اے نوح ! تو نے ہم سے بہت جھگڑا کرلیا ۔ ہم آپ کی باتیں سن سن کر تنگ آگئے ہیں ہم سے یہ روز روز کی فرخش برداشت نہیں ہوتی آپ جس چیز کی ہم کو ہر وقت دھمکی دیتے رہتے ہیں اس کو لے آیئے تاکہ جو کچھ ہونا ہے وہ ہوجائے اگر آپ سچے ہیں تو بس اب اپنا وعدہ پورا کیجئے تاکہ ایک بات کا فیصلہ ہوجائے لیکن ان کو کیسے سمجھایا جائے کہ جس چیز کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ تو ان کی ہلاکت ہے اور اگر وہ ہلاک ہوگئے تو پھر فیصلہ الٰہی کے نافذ ہوجانے کے بعد کون سمجھے گا کہ وہ وعدہ جو نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنا رہے تھے وہ پورا ہوگیا اور دوسری بات یہ ہوئی کہ اس وعدہ الٰہی کے نفاذ کے بعد جو کچھ ہونا طے پایا وہ تو ہوجائے گا لیکن اس ہونے سے ان کو کیا فائدہ ہوا ؟ وہ تو یقینا سراسر خسارہ ہی میں رہے پھر خسارہ کا مطالبہ کرکے انہوں نے کونسا بڑا کام سر انجام دیا ؟ افسوس ! کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کے طالب ہوتے ، اس کی ہدایت طلب کرتے اور حق کی جستجو کرتے تاکہ ان کا کچھ فائدہ ہوجاتا ۔
Top