Urwatul-Wusqaa - Hud : 34
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ١ؕ هُوَ رَبُّكُمْ١۫ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ
وَلَا يَنْفَعُكُمْ : اور نہ نفع دے گی تمہیں نُصْحِيْٓ : میری نصیحت اِنْ : اگر اَرَدْتُّ : میں چاہوں اَنْ اَنْصَحَ : کہ میں نصیحت کردوں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر (جبکہ) كَانَ : ہے اللّٰهُ يُرِيْدُ : اللہ چاہے اَنْ يُّغْوِيَكُمْ : کہ گمراہ کرے تمہیں هُوَ : وہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤ گے
اور اگر اللہ کی مشیت یہی ہے کہ تمہیں ہلاک کرے تو میں کتنی ہی نصیحت کرنا چاہوں میری نصیحت کچھ سودمند نہ ہوگی وہی تمہارا پروردگار ہے اس کی طرف تمہیں لوٹنا ہے
مشیت الٰہی کا فیصلہ تم کو تباہ کرنے کا ہو تو میں کون ہوں جو تم کو بچا سکوں 49 ؎ اللہ تعالیٰ کی رضا کسی کو گمراہ کرنے یا تباہ و برباد کرنے کی نہیں ہوتی لیکن جب انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جو اللہ نے اس کو دیا ہے خود ہی گمراہ ہونے کی کوشش کرے اور راہ راست کی طرف نہ آئے تو مشیت الٰہی میں یہ قانون طے ہے کہ مخالفین و معاندین کو ایک قوت تک ڈھیل دینے کے بعد ان کی باگیں کھینچ لی جائیں اور پھر جب مشیت الٰہی کا وہ فیصلہ نافذ ہوجائے تو کوئی ماں کا لال اس فیصلہ کو روک نہیں سکتا ۔ یہی بات نوح (علیہ السلام) نے بیان فرمائی کہ اے میرے قوم ! اگر اللہ نے تمہاری ہٹ دھرمی ، شرپسندی اور خیر سے بےرغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تمہیں راست روی کی توفیق نہ دے اور جن راہوں پر تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہیں میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کیلئے میری کوئی کوشش بھی کار گر نہیں ہو سکتی ۔ میرا اور تمہارا ایک ہی رب ہے اور ہم اور تم نے مل کر اپنے اللہ ہی کے سامنے جواب کیلئے حاضر ہونا ہے۔ صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی درگار بےنیاز میں بصد نیازدست بد دعا رہنا چاہئے کہ یہ سفینہ حیات خیر و سلامتی سے کنارہ پر جا لگے۔
Top