Urwatul-Wusqaa - Hud : 39
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
فَسَوْفَ : سو عنقریب تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ يَّاْتِيْهِ : کس پر آتا ہے عَذَابٌ : ایسا عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کرے وَيَحِلُّ : اور اترتا ہے عَلَيْهِ : اس پر عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : دائمی
وہ وقت دور نہیں جب تمہیں معلوم ہوجائے گا کون ہے جس پر ایسا عذاب آتا ہے کہ اسے رسوا کرے اور پھر دائمی عذاب بھی اس پر نازل ہو
وہ وقت دور نہیں جب اس بات کا فیصلہ کردیا جائے گا کہ دائمی عذاب میں کون گرفتار ہے ؟ 54 ؎ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں اور وڈیروں کیلئے ایک عذاب وہ تھا جو چند ہی دنوں کے بعد طوفان و طغیانی کی صورت میں آنے والا تھا اور ایک عذاب وہ ہے جو اس دنیوی زندگی کے ہاتھ سے نکل کر آخرت کی زندگی کے پنجہ کے بعد شرع ہونے والا تھا۔ بلا شبہ اس دنیا کا عذاب بھی عذاب ہی ہے اور اس دنیا کے عذاب سے بھی رسوائی لازم ہے لیکن یہاں جو مراد لی گئی ہے وہ آخرت ہی کا عذاب ہے جو اس زندگی کے خاتمہ کے بعد شروع ہوگا ۔ اس لئے کہ اس زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ تو پوری قوم کی قوم کا خاتمہ تھا سوائے چند معدودے آدمیوں کے جو نوح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے لیکن جب پوری قوم کی قوم اس عذاب میں پھنس کر ہلاک ہوجانے والی تھی تو پیچھے عبرت پکڑنے والا کون تھا ؟ اور ان کی رسوائی کن لوگوں کی آنکھوں میں دکھائی دے گی جب کہ دیکھنے والی کوئی آنکھ ہی باقی نہ رہی ۔ اس لئے یہاں رسوا کرنے والے عذاب کا تعلق عالم برزخ اور عالم آخرت ہی کے ساتھ سمجھنا چاہئے اور وہی اصل عذاب تھا جو نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا باعث ہوا اور ان کی صرف دنیا ہی برباد نہ ہوئی بلکہ آخرت بھی تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔
Top