Urwatul-Wusqaa - Hud : 43
قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ١ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ١ۚ وَ حَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا سَاٰوِيْٓ : میں جلد پناہ لے لیتا ہوں اِلٰي جَبَلٍ : کسی پہاڑ کی طرف يَّعْصِمُنِيْ : وہ بچالے گا مجھے مِنَ الْمَآءِ : پانی سے قَالَ : اس نے کہا لَا عَاصِمَ : کوئی بچانے والا نہیں الْيَوْمَ : آج مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِلَّا : سوائے مَنْ رَّحِمَ : جس پر وہ رحم کرے وَحَالَ : اور آگئی بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان الْمَوْجُ : موج فَكَانَ : تو وہ ہوگیا مِنَ : سے الْمُغْرَقِيْنَ : ڈوبنے والے
(نوح کے بیٹے) نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا ، وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا نوح (علیہ السلام) نے کہا آج اللہ کی بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں وہی جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی ، پس وہ انہی میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے
نوح (علیہ السلام) کے بیٹے نے نوح (علیہ السلام) کو کیا جواب دیا ؟ 59 ؎ باپ نے ایسے نازک وقت میں بھی بیٹے کو ایمان کی دعوت دی اور کشتی پر سوار ہوجانے کا کہا لیکن اس بد بخت نے ایسے نازک وقت میں بھی طوفان کو سرسری سمجھا اور کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان سے بچ جائوں گا اور وہ مجھے پانی کے زور سے بچا لے گا ۔ بیٹے نے ایسا کیوں کہا ؟ اس لئے کہ اس کی عقل کا فیصلہ یہی ہوا کہ کشتی پر سوار ہو کر جان بچائی نہیں جاسکتی کیونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور پانی اس زور سے چڑھ رہا ہے کہ کشتی بان مشکل ہی سے کشتی کو سنبھال سکے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ کشتی پورے زور سے کسی پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گی ۔ اس لئے اس نے یہ سمجھا کہ اس طوفان سے بچنے کے لئے پہاڑ کے اوپر چڑھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ۔ کشتی پر سوار ہونے کے لئے ایمان کی ضرورت تھی اور وہ اس کے پاس موجود نہیں تھا اور حقیقت یہی ہے کہ عقل جب وحی الٰہی کے تابع نہ رہے بلکہ کلی طور پر آزاد ہوجائے تو اس کا انجام بھی ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ۔ یہی وہ غلطی ہے جس نے بڑے بڑے لوگوں کو راہ ہدایت سے دور کردیا اکثر نے یہ سمجھا کہ دین و مذہب کے معاملہ میں عقل کی ضرورت نہیں ہے اس لئے انہوں نے ہر اس بات کو جو دین کے نام سے کی جائے عقل سے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی اور بعض نے عقل کو اس قدر استعمال کیا کہ وہ وحی الٰہی پر عقل کو ترجیح دینے لگے اور حقیقت عقل کو وحی الٰہی کے تابع رکھنے میں مستور تھی ، ہے اور رہے گی ۔ پانی کی بہتات ہو تو کیا ہوتا ہے ؟ لیکن اگر پانی بالکل معدوم ہوجائے تو پھر کیا نتیجہ ہوگا ؟ اس لئے مان لینا چاہئے کہ زندگی کے لئے اعتدال ضروری ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے دوبارہ بیٹے کو فیصلہ الٰہی سے مطلع کیا 60 ؎ نوح (علیہ السلام) نے دوبارہ بیٹے کو مطلع کیا کہ اے نالائق و ناسمجھ ! یہ سیلاب و طوفان معمولی اور طبعی واقعہ نہیں بلکہ یہ تو عذاب الٰہی ہے۔ پہاڑوں کی کیا مجال کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بچا سکیں ، بچنے کا تو ایک ذریعہ تھا کہ تم سچے دل سے توبہ کرتے اور رحمت الٰہی کے دامن میں پناہ لیتے۔ آپ ﷺ کا یہ کہنا بھی اس وقت شفقت پدرانہ ہی کے باعث تھا ورنہ اگر وہ توبہ کر بھی لیتا تو یقیناً اس عذاب سے نجات حاصل نہ کرسکتا کیونکہ اس وقت توبہ کا دروازہ ایک وقت تک لاک ہوچکا تھا۔ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا گیا ہے۔ مثل ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ ہمارے بعض مفسرین نے اپنی فرقہ واریت کو سہارا دینے کیلئے اس مقام کو ایسے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی حال میں درست نہ تھی اور نہ ہی اس سے وہ نتیجہ اخذ ہوتا تھا جو انہوں نے اخذ کرنے کی لاحاصل کوشش کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ : ” بعض ظاہر پرست اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی بےبسی ثابت کرنے کیلئے بطور دلیل اکثر یہ آیت پڑھتے ہیں ، انہوں نے کبھی اتنا سوچنے کی زحمت نہ کی کہ یہ عجز کس کی طرف سے ہے اگر نوح (علیہ السلام) کا بیٹا منت سماجت کرتا کہ ابا جان مجھے بچا لیجئے اور آپ (علیہ السلام) فرماتے کہ نہیں میں تمہیں نہیں بچا سکتا تو ان حضرات کا استدلال قابل التفات ہوتا۔ یہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ آپ (علیہ السلام) تو بار بار فرما رہے ہیں کہ آ جا کشتی پر سوار ہوجا ، بچ جائے گا لیکن وہ اپنی بدبختی کے باعث انکار کر رہا ہے کہ میں کشتی میں نہیں چڑھوں گا۔ “ حالانکہ جو بات بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ بیٹا بلاشبہ نوح (علیہ السلام) کا تھا اور نوح اللہ کے نبی و رسول تھے لیکن جب بیٹے کے اعمال درست نہ نکلے تو اس کو نوح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت بھی کچھ کام نہ آئی۔ اس لئے اس سے امت کو سبق یہ دیا گیا کہ نجات حاصل کرنے کیلئے اعمال کا درست ہونا ضروری ہے۔ حسب و نسب نجات کیلئے کافی نہیں۔ حسب و نسب کے لحاظ سے تو کنعان نوح (علیہ السلام) کا بیٹا تھا لیکن جب اس کے اعمال درست نہ تھے تو نوح (علیہ السلام) کی ولایت بھی اس کے کچھ کام نہ آئی۔ باپ بیٹے میں ابھی بات چیت ہو رہی تھی کہ پانی کے ایک ریلہ نے اس کا کام تمام کر دیا 61 ؎ نوح (علیہ السلام) بیٹے کو کہہ رہے تھے کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر وہی جس کو بچانا چاہے اور اس نے اس طوفان سے بچانے کیلئے یہ حکم دیا ہے کہ اس کشتی کے سواروں کے سوا کوئی بچ نہیں سکے گا لہٰذا جس کو وہ بچانا چاہے گا اس کو کشتی پر سوار ہونے کی توفیق ملے گی۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ پانی کا ایک ریلہ آیا اور اس مغرور اور متمرد کو تنکے کی طرح بہا کرلے گیا اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ، اس لئے کہ وہ غرق ہونے والوں میں سے تھا۔ اس طوفان کا ذکر بائبل میں اس طرح ہے کہ ” اور پانی بڑھ گیا اور کشتی کو اوپر اٹھا دیا سو کشتی زمین پر سے اٹھ گئی اور پانی زمین پر بڑھا اور بہت زیادہ ہوا اور کشتی پانی کے اوپر بہتی رہی اور پانی زمین پر نہایت بڑھ گیا اور سب اونچے پہاڑ جو آسمان کے نیچے تھے چھپ گئے ، پندرہ ہاتھ پانی ان کے اوپر بڑھا اور پہاڑ ڈوب گئے۔ “ (پیدائش 7 : 17 ، 21)
Top