Urwatul-Wusqaa - Hud : 45
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا کی اس نے کہا خدایا ! میرا بیٹا تو میرے گھر کے لوگوں میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ بھی سچا ہے ، تجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کوئی نہیں
نوح (علیہ السلام) کی مناجات بارگاہ رب ذوالجلال و الاکرام 63 ؎ نوح (علیہ السلام) نے رب ذوالجلال والاکرام کے حضور اپنی عرض اس طرح پیش کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار ! میرا بیٹا تو میرے گھر والوں ہی میں سے ہے اور تیرا وعدہ بھی بالکل سچا ہے اور تو ہر حکم کرنے والے سے اوپر حاکم ہے۔ اس طرح میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا کہ میرے بیٹے کی ہلاکت کیوں ؟ یہ التجا نوح (علیہ السلام) نے بیٹے کے غرق ہونے سے پہلے کی تھی یا بعد ؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے۔ اگر پہلے ہو تو اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کنعان کھلم کھلا کفر نہیں کرتا تھا لیکن اس کے دل میں نفاق تھا۔ نوح (علیہ السلام) نے اس کے ظاہری اسلام کے پیش نظر یہ گزارش کی کہ بار الہا ! یہ میرا بچہ ہے ؟ اور ڈوب رہا ہے اور تو نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ میں تیرے اہل کو بچائوں گا۔ جواب دیا گیا کہ یہ تیرا بیٹا مسلمان نہیں کیونکہ اس کے دل میں کفر و نفاق ہے اس کے اعمال اچھے نہیں اس لئے اس کے متعلق مت سفارش کرو اور بعض نے کہا کہ وہ کھلا کافر تھا لیکن غلبہ محبت کی وجہ سے خیال نہ رہا اور یہ عرض کر بیٹھے ، جس پر تنبیہہ کی گئی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ (علیہ السلام) کی یہ ندا بیٹے کے ڈوب جانے کے بعد کی تھی جو یقیناً زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس ندا کا ذکر وکان من المغرقین کے بعد ہوا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ الٰہی میرے بیٹے کے غرق ہوجانے کی وجہ کیا ہے ؟ حالانکہ وہ میرا بیٹا تھا۔ اس استفسار میں پہلے تو فوراً فرمایا کہ ” انہ لیس من اھلک “ وہ تیرے اہل و عیال سے نہیں ہے بعد میں اس کی وجہ بھی بتا دی کہ انہ عمل غیر صالح وہ بدعمل اور بدکردار تھا اور ایسے شخص کو نبوت کے پاک خاندانوں کا فرد شمار نہیں کیا جاسکتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبولیت کا سبب صرف کسی نیک بندے اور بزرگ کی اولاد ہونا نہیں بلکہ ایمان و عمل صالح ہے۔ اگر کوئی نعمت ایمان سے محروم ہے تو اس کو کسی بزرگ باپ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ خواہ وہ باپ نوح (علیہ السلام) جیسا عظیم المرتبت نبی ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نجات اور ترقی درجات کا دارومدار ایمان اور عمل صالح پر ہے جس کی موت کفر پر ہوئی اس کیلئے بخشش نہیں اور نہ ہی اس کیلئے کسی کی شفاعت قبول ہوگی لیکن جو ایماندار ہو گو شومئے قسمت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا رہا ہو اس کیلئے شفاعت اور بخشش کا دروازہ کھلا ہے۔ جو لوگ اس واقعہ سے انبیاء و صلحا کی شفاعت کا انکار کرتے ہیں وہ بھی حق و انصاف سے دور ہیں اور جو اس گھمنڈ میں احکام الٰہی کی نافرمانی کرتے ہیں کہ وہ فلاں بزرگ کی اولاد سے ہیں ان کی سیاہ بختی بھی دیدہ عبرت نگاہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ کیا انہیں یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ جب رب ذوالجلال والاکرام کے ہر حکم کی بجا آوری ان کے بزرگ آبائو اجداد کی زندگی کا واحد نصب العین تھا جنہوں نے ایک قدم بھی تقویٰ کی راہ سے ادھر ادھر نہیں رکھا۔ ان کی اولاد ہو کر اس پروردگار عالم کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ جس کریم نے ان کے بزرگوں کی شب بدٰاریوں ، اشکباریوں ، نیاز مندیوں اور دل گدازیوں پر رحم فرما کر انہیں عزت و ناموری کے اتنے بلند مقام تک پہنچایا کیا ان کے فرزندوں کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنے مولا کریم کی اطاعت و بندگی کو چھوڑ کر اس کی نافرمانی کو اپنا شعار بنائیں۔ اس غلط نظریہ نے ان شریف خاندانوں کو جتنا نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی اور حادثہ نے پہنچایا ہو۔ کاش ان خاندانوں کے چشم و چراغ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور خداداد صلاحیتوں کو خدمت دین اور خدمت خلق کیلئے استعمال کریں تو وہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر کتنی بخششیں فرماتا ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ نیک اور پاکبازوں کی اولاد ، اخلاق و کردار کے لحاظ سے بہت ہی پیچھے رہ گئی۔ والی اللہ المشتکی۔
Top