Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Hud : 68
كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ۠ ۧ
كَاَنْ
: گویا
لَّمْ يَغْنَوْا
: نہ بسے تھے
فِيْهَا
: یہاں
اَلَآ
: یاد رکھو
اِنَّ
: بیشک
ثَمُوْدَ
: ثمود
كَفَرُوْا
: منکر ہوئے
رَبَّهُمْ
: اپنے رب کے
اَلَا
: یاد رکھو
بُعْدًا
: پھٹکار
لِّثَمُوْدَ
: ثمود پر
گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے ! ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ثمود کے لیے محرومی ہوئی
ثمود قوم کے سرکشوں کا نام ایسا مٹا کہ گویا وہ کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے 91 ؎ قوم ثمود کے ظالموں ، کافروں اور سرکشوں کو ایک ہی خوفناک کڑک نے آ لیا کہ گویا ان کے دل سنویں میں پھٹ گئے۔ سورة الاعراف میں صالح (علیہ السلام) کی قوم کے عذاب کو ” ایک زلزلے “ سے تعبیر کیا گیا اور اس جگہ اس کو ” خوفناک کڑک “ کا نام دیا گیا۔ ان دونوں بیانوں میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ جب گرجدار آواز پیدا ہوتی ہے تو زمین بھی تھرا اٹھتی ہے جیسا کہ توپ کا گولہ پھٹتا ہے تو مکان اور زمین ہلنے لگتے ہیں ظاہر ہے کہ اس زور دار کڑک کے ساتھ زور دار زلزلہ بھی ہوا ہوگا اور اس طرح زور دار زلزلہ کے ساتھ زور دار کڑک یا شور بھی ہوا ہوگا کیونکہ زلزلہ اور کڑک دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں جو بھی پہلے ہوا اس کے ساتھ دوسرا بھی ہوا۔ اس جگہ ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ جب آندھی اور طوفان ، پہاڑوں کی آتش فشانی ، ان سے ملکوں اور قوموں کا برباد ہونا ، زمین کا دھنس جانا ، قحط کا پڑنا ، کئی قسم کے حشرات لارض کا پیدا ہونا ، پانی میں ہوا میں جراثیم کا پدنا ہوجانا اور کئی قسم کی کی وبائوں کا آنا اور قوموں کا ہلاک ہونا سب امور طبعی ہیں تو پھر ان ہی چیزوں کو عذاب الٰہی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سارے کام آج بھی اسی طرح ہو رہے ہیں جس طرح پہلے ہوا کرتے تھے بلاشبہ یہ سب کام امور طبعی ہیں پہلے بھی ہوا کرتے تھے ، آج بھی ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن انبیاء کرام (علیہ السلام) کے نشانات و معجزات وہ اس لئے کہلائے کہ انبیاء و رسل نے ان کے آنے کی حتمی خبر دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے دی اور پھر جس طرح خبر دی و من و عن اسی طرح ہوا اور متعین وقت کے ساتھ ہوا چونکہ امور طبعی کا پیدا کرنے والا بھی وہی خالق کل ہے اور کوئی نہیں۔ اس نے جب ان امور طبعی کا نفاذ عین بداعمال قوموں کے انجام کے ساتھ وابستہ کیا تو یہ بھی اس کی قدرت کا کمال ہے اور پھر عین اس وقت سے پہلے اگر کوئی جماعت ایمان لے آئی تو اس سے عذاب ٹال بھی دیا گیا اور یہ بھی کہ عین اس وقت سے پہلے اپنے رسولوں اور انبیائے کرام کو وہاں سے نکال لینا بھی دقرت الٰہی کا دوسرا کمال ہے پھر ان کمالات سے انکار کی آخر کوئی صورت اور کوئی خاص وجہ۔ آج علمی تحقیقات ان چیزوں کی اطلاع پہلے دے رہی ہیں تو بھی کوئی حتمی بات نہیں ہے کبھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور کبھی بالکل نہیں اور کبھی ہوتا ہے تو ادھوری قسم کا اور یہ بھی کہ نبی اعظم و آخر ﷺ پر نبوت کیوں ختم کردی گئی اور جس طرح آپ ﷺ سے پہلے کسی آنے والے نبی (علیہ السلام) و رسول (علیہ السلام) کا ذکر آنے کے بعد اس کو اگر نہ مانا جائے تو کفر تھا اور آج بعینہ اس کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص نبوت و رسالت کا دعویٰ کر دے تو وہ بغیر کسی حیل و حجت کے کافر تسلیم ہوگا۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ آخر کیوں ؟ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد نبی و رسول والے مخصوص کاموں کی ضرورت نہیں رہی اور وہ علوم اللہ تعالیٰ نے عام کردیئے ہیں اور دنیا کی ساری قوموں کو ملا کر صرف اور صرف ایک قوم بنا دیا گیا ہے اور مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کی ضرورت ختم کردی گئی ہے اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے تھا کہ ایک چز کی ابھی ضرورت تو موجود ہو لیکن اس چیز کو ختم کردیا جائے یہ کہنے والوں کی خود لاعلمی اور جہالت ہے۔ اب رہتی دنیا تک نہ کوئی نیا یا پرانا نبی اور رسول آئے گا ، نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام اور دنیا کی ساری قوموں کی ہدایت کیلئے صرف اور صرف ایک نبی و رسول قرار پائے جن کا اسم گرامی محمد (احمد ﷺ ہے اس کے بعد وہ مخصوص قسم کے علاقائی عذاب جو پچھلی قوموں کو دیئے جاتے تھے اس ایک ہی قوم کو نہیں دیئے جاسکتے اس کیلئے اصول الٰہی یہ قرار پا گیا کہ ” اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوٹے چھوٹے عذاب مختلف گروہوں اور علاقوں میں ان حالات کے مطابق دیئے جاتے ہیں اور سب سے بڑا عذاب ایک خاص وقت کیلئے روکا گیا ہے جیسے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے وقت میں بھی روکا گیا تھا جس کا نام قیامت ہے اور ان چھوٹے چھوٹے عذابوں کے بعد اب اپنے وقت مقرر میں وہی عذاب قیامت آئے گا جو گنہگاروں ، کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کیلئے فی الواقعہ عذاب کا باعث ہوگا لیکن متقین و پرہیزگار اور اللہ کے نیک بندوں کیلئے وہ نہایت اہم خوشخبری کا باعث بنے گا۔ اس آیت پر صالح (علیہ السلام) کی دعوت کا ذکر ختم کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد صالح (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت ذکر کی جاتی ہے جو اس سورت میں بیان کی گئی سرگزشتوں میں سے تیسری سرگزشت ہے۔ سیدنا صالح (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت ہود (علیہ السلام) کی قوم جس کو ” عاد قوم “ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ” ثمود قوم “ کا ذکر بیان کیا ہے اور اس قوم کو صالح (علیہ السلام) کی قوم بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں صالح (علیہ السلام) کا نام آٹھ جگہ آیا ہے۔ سورة الاعراف کی آیت میں تین بار ، سورة ہود میں چار بار اور سورة الشعراء میں ایک بار۔ صالح (علیہ السلام) جس قوم میں پیدا ہوئے اس قوم کو ثمود کہتے ہیں اور ثمود کا ذکر قرآن کریم کی 9 سورتوں میں کیا گیا ہے اور وہ سورتیں الاعراف 7 ، ہود 11 ، حجر 15 ، نمل 29 ، فصلت 49 ، النجم 53 ، القمر 54 ، الحاقہ 69 اور الشمس 91 ہیں۔ ہود (علیہ السلام) کی دعوت پر لبیک کہنے والے جو اس وقت اپنے علاقے سے ہجرت کر کے بچے تھے وہی بعد میں ” عاد ثانیہ “ یا ” ثمود “ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں اور صالح (علیہ السلام) کا تعلق بھی اس قوم ” عاد ثانیہ “ یا ” ثمود قوم “ سے ہے کیونکہ دونوں نام ایک ہی قوم کے کہے گئے ہیں۔ اس لئے دونوں قوموں کا حسب و نسب ایک ہی ہے اور یہی بات علمائے اسلام نے بالآخر بیان کی ہے اور حسب و نسب کے جتنے نام نکالے گئے ہیں اور جتنی پشت میں جا کر ان کو آدم (علیہ السلام) سے ملایا گیا ہے وہ فرضی اندازے ہیں اس لئے ان پر بحث کر کے کسی کو غلط اور کسی کو درست بیان کرنا زبان و قلم کی ایک جنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ثمود کہاں آباد تھے اور کس خطہ میں پھیلے ہوئے تھے ؟ اس کے متعلق جو طے شدہ بات ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ ” حجر “ میں تھیں جو حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک جو میدان نظر آتا ہے سب ان کا مقام سکونت ہے اور ایک مدت سے اس کو ” فج الناقہ “ کا نام دیا گیا ہے اور یہی آج کل زیادہ معروف ہے۔ ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات اور آثار آج تک موجود ہیں اور اس زمانہ میں بھی بعض مصری اہل تحقیق نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چناچہ عرب کا مشہور مورخ مسعودی رقم کرتا ہے کہ ودممھم باقیۃ واثارھم بادیۃ فی طریق من ورد من الشام (ج 3 ص 139) یعنی جو شخص شام سے حجاز کو آتا ہے اس کی راہ میں ان کے مٹے مٹے نشان اور بوسیدہ کھنڈرات پڑتے ہیں۔ حجر کا یہ مقام جو حجر ثمود کہلاتا ہے شہر مدین سے جنوب مشرق میں اس طرح واقع ہے کہ خلیج عقبہ اس کے سامنے پڑتی ہے اور جس طرح عاد کو عاد ارم کہا گیا ہے اس طرح ان کی ہلاکت کے بعد ان کو ثمود ارم یا عاد ثانیہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ مورخین نے ثمود قوم کی اصل کیا ہے کے سوال پر بہت کچھ بحث کی ہے اور طرح طرح کی آراء پیش کی ہیں جن کے ذکر کی اس جگہ چنداں ضرورت نہیں اور ان تمام آراء کے خلاف محققین کی رائے یہی ہے کہ یہ عاد کا بقیہ ہیں اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے اور اہل حضر موت کا یہ دعویٰ کہ ثمود کی آبادیاں اور محلات عاد کی صناعی کا نتیجہ ہیں اس بات کا مخالف نہیں بلکہ موید ہے کہ عاد اولیٰ اور عاد ثانیہ بہرحال عاد ہیں اور جب قرآن کریم نے صالح (علیہ السلام) کی زبان سے یہ بات خود بیان فرما دی کہ : ” تم اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے تم کو عاد کے بعد ان کا قائم مقام بنایا اور تم کو زمین پر جگہ دی کہ تم اس کی سطح اور نرم حصوں پر محلات بناتے ہو اور سنگ تراشی کر کے پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو۔ “ (الاعراف 7 : 74) رہی یہ بات کہ ثمود کا اصل زمانہ کیا ہے ؟ سو اس کے متعلق کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی جاسکتی کیونکہ مورخین کے درمیان اس قدر اختلافات ہیں کہ کسی بات کو یقینی طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں ! یہ بات محقق ہے کہ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا زمانہ ہے اور وہ اس جیلف القدر پیغمبر کی بعثت سے بہت پہلے ہلاک ہوچکے تھے۔ ثمود اپنے مشرک پیش روئوں کی طرح مشرک ہی تھے۔ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے علاوہ بہت سے معبودان باطل کے پرستار تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کیلئے ان ہی کی قوم و قبیلہ سے سیدنا صالح (علیہ السلام) کو پیغمبر اور رسول بنا کر مبعوث کیا تاکہ وہ ان کو راہ ہدایت کی دعوت دیں اور ان کو اللہ کی نعمتیں یاد دلائیں جن سے صبح و شام وہ محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور ان پر واضح کریں کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی توحید اور یکتائی پر شاہد ہے اور یقینی دلائل اور مسکت براہین کے ساتھ ان کی گمراہی کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ پرستش و عبادت کے لائق ذات احد کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے گزشتہ اقوام اور ان کے ہادیوں کے واقعات و حالات بیان کئے ہیں ان کا اصل مقصد نصیحت و موعظت کا سامان مہیا کرنا ہے اس کا موضوع حکایات و قصص بیان کرنا مطلق نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کہ انسان کو عقل کی روشنی عطا فرمائی ہے تو اس کی ہدایت و نجات اخروی کا کیا سامان مہیا کیا ہے تاکہ وہ ان اسباب کی مدد سے اپنی عقل سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نامرضیات کو پہچانے ؟ اس نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جاریہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کیلئے ان ہی میں سے پیغمبر بھیجتا ہے جو لوگوں کو حق کی راہ بتاتے ہیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور تائدا میں سے پیغمبر بھیجتا ہے جو لوگوں کو حق کی راہ بتاتے ہیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور تائید میں اقوام و امم کے واقعات بیان کرتا اور ماضی کی تاریخ کو دہراتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جن اقوام نے اپنے رسولوں کی ہدایات کو تسلیم کیا انہوں نے دنیا و آخرت کی فلاح پائی اور جن لوگوں نے ان کی تلقین کا انکار کیا ، ان کا مذاق اڑایا اور ان کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تصدیق کیلئے کبھی بطور خود اور کبھی قوم کے مطالبہ پر ایک ” نشان عذاب “ مقرر کردیا کہ آج تک تم نے کیا جو کچھ کیا لیکن اب تمہارے لئے یہ ” نشان “ مقرر ہے اگر تم نے اس ” نشان “ کی حدود کو بھی پھلانگ دیا تو گویا تم نے عذاب الٰہی کو دعوت دے دی۔ ایسا عذاب جو کبھی ٹلنے والا نہیں چناچہ سورة القصص میں ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” اور تیرا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والا نہیں جب تک ان کے صدر مقام پر اپنا رسول نہ بھیج دے جو ان کو ہماری آیات پڑھ کر سنائے اور ہم اس وقت تک بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے جب تک ان کے بسنے والے خود ہی ظلم پر نہ اتر آئیں۔ غرض صالح (علیہ السلام) قوم ثمود کو ایک مدت تک سمجھاتے اور نصیحت کرتے رہے۔ گزشتہ قوموں کے واقعات اور خصوصاً عاد اولیٰ کی عبرت ناک کہانی سے ان کو بار بار آگاہ فرمایا مگر قوم پر مطلق اثر نہ ہوا بلکہ اس کا بغض وعناد ترقی ہی کرتا چلا گیا اور ان کی مخالفت بڑھتی ہی گئی اور وہ لوگ کسی طرح بھی گزشتہ اپنے قومی بزرگوں کے بت تراشنے اور ان کی پرستش کرنے سے باز نہ آئے۔ الایہ کہ ایک مختصر اور کمزور جماعت ہی ایمان لائی مگر قوم کے مرد اور بڑے بڑے سرمایہ دار لیڈر اسی طرح باطل پرستی پر قائم رہے اور انہوں نے اللہ کی دی ہوئی ہر قسم کی خوش عیشی اور رفاہیت کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے کفران نعمت کو شعار بنا لیا وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اے صالح ! اگر ہم باطل پرست ہوتے اور اللہ کے صحیح اور سچے دین کے منکر ہوتے جیسا کہ تو ہم کو کہتا ہے اور ہم اس کے پسندیدہ طریقہ پر قائم نہ ہوتے تو آج ہم کو یہ دھن و دولت ، سرسبز و شاداب باغات کی فراوانی ، سیم و زر کی بہتات بلندو عالی شان محلات کی رہائش ، میوہ جات اور پھلوں کی کثرت ، شیریں نہروں اور عمدہ مرغزاروں کی افزائش حاصل نہ ہوتی تو خود کو اور اپنے پیروئوں کو دیکھ اور ان کی تنگ حالی اور غربت پر نظر کر اور بتا کر اللہ کے پیارے اور مقبول کون ہیں۔ ہم یا تم ؟ صالح (علیہ السلام) فرماتے کہ تم اپنی اس رفاہیت اور عیش سامانی پر شیخی نہ مارو اور اللہ کے سچے رسول اور اس کے دین برحق کا مذاق نہ اڑائو اس لئے کہ اگر تمہارے کبرو غرور اور عناد کا یہی حال رہا تو پل بھر میں یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا اور پھر نہ تم رہو گے اور نہ تمہارا یہ ساز و سامان۔ بلاشبہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں بشرطیکہ ان کے حاصل کرنے والے اس کا شکر ادا کریں اور اس کے سامنے سرنیاز جھکائیں اور بلاشبہ یہی سارے سامان اللہ کی طرف سے ایک آزمائش کا عذاب و لعنت ہیں اگر ان کا استقبال شیخی و غرور کے ساتھ کیا جائے۔ اس لئے یہ سمجھنا سخت غلطی ہے کہ ہر سامان عیش خوشنودی الٰہی کا ثمرہ ہے۔ پھر ثمود کو یہ بھی حیرانی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ہی میں سے ایک انسان اللہ کا پیغمبر اور رسول بن جائے اور وہ اللہ کے پیغام سنانے لگے ؟ وہ سخت تعجب سے کہتے کہ ” کیا ہماری موجودگی میں اس پر (اللہ کی) وحی اترتی ہے۔ “ مطلب یہ تھا کہ اگر ایسا ہونا ہی تھا تو اس کے اہل تو ہم تھے نہ کہ صالح اور کبھی اپنی قوم کے کمزور افراد کو جو مسلمان ہوگئے تھے خطاب کر کے کہتے کہ ” کیا تم کو یقین ہے کہ بلاشبہ صالح اپنے پروردگار کا رسول ہے “ اور پھر جب مسلمان ان کو جواب دیتے کہ ” بلاشبہ ہم تو اس کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان رکھتے ہیں۔ “ تو اس وقت یہ متکبرین غصہ سے لال پیلے ہو کر جواب دیتے کہ ” بلاشبہ ہم تو اس شے کا جس پر تمہارا ایمان ہے انکار کرتے ہیں۔ “ مختصر یہ کہ صالح (علیہ السلام) کی مغرور اور سرکش قوم نے ان کی پیغمبرانہ دعوت و نصیحت کو تسلیم کرنے سے کھلا کھلا اور واضح طور پر انکار کردیا اور صالح (علیہ السلام) کو کہنے لگے کہ ” تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے ؟ کوئی نشانی لے آ اگر تو سچا ہے ؟ تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ اونٹنی ہے پانی پینے کیلئے ایک دن میں ایک باری اس کی ہے اور ایک دن ایک باری تمہاری۔ “ (الشعراء) ظاہر ہے کہ صالح (علیہ السلام) کا اونٹنی کو ایک ” نشان “ مقرر کردینا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے تھا نہ کہ اپنی ذات سے۔ اس لئے قرآن کریم میں دوسری جگہ اس اونٹنی کو ” ناقۃ اللہ “ کہا گیا۔ گویا آج تک تو یہ اونٹنی فقط صالح (علیہ السلام) کی تھی اگرچہ وہ اس پر تبلیغ ہی کا کام سرانجام دیتے ہوں لیکن آج سے یہ اونٹنی خاص اونٹنی ہوگئی ہے اس لئے وہ ” ناقۃ اللہ “ یعنی اللہ کی طرف سے نشانی ٹھہرائی گئی اونٹنی ہے۔ پھر خصوصاً قرآن کریم نے اس اونٹنی کے پانی پینے کی باری مقرر کرنے کا ذکر جو فرمایا تو اس سے ان کی ذہن کی عکاسی ہوگئی کہ وہ اس اونٹنی کو پہلے ہی سے تنگ کرتے تھے کیونکہ وہ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی تھی اور مخالفین کے جانوروں تک سے مخالفت شروع سے ہوتی چلی آرہی ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ قرآن کریم نے اس کو ” ناقۃ اللہ “ کہا ہے تاکہ پیش نظر رہے کہ یوں تو تمام مخلوق اللہ ہی کی ملکیت ہے مگر ثمود نے چونکہ کوئی نشان طلب کیا تھا اور صالح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اس کو بطور نشان ٹھہرا دیا تھا کہ اگر تم نے اس کو کوئی گزند پہنچایا تو بس وہی وقت تمہاری ہلاکت کا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت تمہاری ہلاکت کا وقت مقرر کردیا جائے گا۔ گویا اس اعلان کے بعد وہ اونٹنی ان کیلئے ایک ” نشان “ ٹھہری۔ اس لئے قرآن کریم نے ” لکم ایۃ “ کے الفاظ کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ یہ نشانی اپنے اندر خاص اہمیت رکھتی ہے لیکن بدقسمت قوم یعنی قوم ثمود زیادہ دیر تک اس کو برداشت نہ کرسکی اور ایک روز سازش کر کے قدار بن سالف نامی ایک شخص کو اس پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس کے قتل پر پہل کرے اور باقی اعانت کریں اس طرح انہوں نے انجام کار اس ” ناقۃ اللہ “ کو ہلاک کر ڈالا۔ صالح (علیہ السلام) کو معلوم ہوا تو آبدیدہ ہو کر وحی الٰہی کا اعلان کردیا کہ اے بدبخت قوم کے لوگو ! آخر تم سے صبر نہ ہوسکا اور اب اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو تین روز کے بعد تم کو اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے تہس نہس کر کے رکھ دے گا۔ قرآن کریم سے اس سلسلہ میں صرف دو باتیں ثابت ہیں ایک یہ کہ ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے نشان طلب کیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ” ناقۃ “ کو بطور نشان پیش کیا دوسرے یہ کہ صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ ہدایت کردی تھی کہ وہ اس اونٹنی کو کوئی ضرر نہ پہنچائیں اور پانی کی باری مقرر کرلیں ایک وقت ناقہ کیلئے متعین اور ایک وقت قوم کے دوسرے جانوروں کا بھی تاکہ جھگڑے کی کوئی صورت پیش ہی نہ آئے اور یہ کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا گیا تو یہی قوم کی ہلاکت کا نشان ہوگا۔ چناچہ انہوں نے ناقہ کو ہلاک کردیا اور اللہ کے عذاب سے خود بھی ہلاک ہوگئے اور دوسری جگہ قرآن کریم میں جس عذاب سے وہ ہلاک ہوئے اس کا ذکر بھی موجود ہے اور اس کیلئے مختلف پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے کہ دوسری نافرمان قوموں کی ہلاکت اور قوم ثمود کی ہلاکت کا موازنہ کرلیا جائے کہ نشان طلب کرلینے کے بعد اگر اس سے انحراف کیا جائے تو اس سلسلہ میں سنت اللہ کیا مقرر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی سنت کو کبھی نہیں بدلتا۔ اس لئے جو دوسری نافرمان قوموں کا حشر ہوا وہی قوم ثمود کا بھی ہوگیا۔ لیکن ہمارے بعض مفسرین نے ” ناقۃ اللہ “ کو نہ معلوم کیا سے کیا بنا دیا اور اس کیلئے کتنی کہانیاں گھڑی ہیں جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ ” ناقۃ اللہ “ کے متعلق جو دو باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں بلاشبہ وہ حق ہیں اور ایک مسلم وقانت دل کی جان۔ لیکن اس سے زائد جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا مدار تاریخی روایات اور بائبل کے بیانات ہیں۔ علامہ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رح) نے سورة الاعراف کی تفسیر میں ” ناقۃ اللہ “ کے وجود میں آنے کی روایات کو سند روایات کے اصول پر نقل نہیں فرمایا بلکہ ایک تاریخی واقعہ کے طور پر تحریر کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کو اس طرح بھی بیان کیا ہے اور تاریخ میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں اور کسی واقعہ کا عربی زبان میں قلمبند کردینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قرآن یا حدیث ہے۔ ” ناقۃ اللہ “ ثمود قوم کیلئے بلاشبہ ایک ” نشان “ تھی کیونکہ اس کو گزند پہنچانے کے ساتھ ان کے عذاب کا معاملہ طے ہوچکا تھا۔ ثمود قوم نے اتفاق رائے سے اس کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اب ہمارے لئے ” ناقۃ اللہ “ کی حیثیت بالکل وہی ہے جو ” بیت اللہ “ ” ارض اللہ “ ” وقف للہ “ ” سبیل للہ “ سورة العاکف فیہ والباد (الایہ حج) ” لا تحلوا شعائر اللہ ولا الشھر الحرام ولا الھدی ولا القلآئد ولا امین البیت الحرام “ (الایہ مائدہ) وغیرہ کی ہے۔ صالح (علیہ السلام) کی اس اونٹنی کی داستانیں تو بہت لمبی ہیں لیکن اختصار کے ساتھ آپ بھی سن لیں کہ اس کے متعلق کیا کچھ بیان ہوا ؟ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ قوم ثمود کی اصلاح کیلئے صالح (علیہ السلام) کو جو مبعوث کیا گیا تو اس کی حقیقت یہ تھی کہ صالح (علیہ السلام) وفات پا گئے تھے لیکن کچھ مدت کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کر کے اور رسول بنا کر قوم ثمود کی طرف بھیج دیا۔ صالح (علیہ السلام) نے جب قوم کو وعظ و درس دیا اور ساتھ ہی بھی بتایا کہ میں وہی صالح ہوں جو اس سے قبل بھی آپ میں رہ چکا ہوں تو قوم نے انکار کیا اور اس بات کی تصدیق کیلئے آپ سے ایک گابھن اونٹنی کا نشان طلب کیا کہ اس طرح اس پہاڑ سے تو اشارہ کر اور اس سے اس طرح کی اونٹنی برآمد ہوجائے اگر وہ برآمد ہوگئی تو ہم آپ کو وہی صالح مان لیں گے جو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو کر آیا ہے۔ آپ نے اس پہاڑ کی طرف اشارہ کیا تو اس میں سے وہ اونٹنی نکل آئی جو ان کی دی گئی شرائط کے مطابق تھی لیکن اس کے باوجود قوم کے لوگوں نے صالح (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول تسلیم نہ کیا بلکہ اس اونٹنی کی ہلاکت کی سازش کی حتیٰ کہ اس کو ہلاک کردیا اور اس جرم کی پاداش میں ان کو بھی ہلاک کردیا گیا۔ اور بعض نے یہ لکھا کہ قوم ثمود جب صالح (علیہ السلام) کی تبلیغ حق سے اکتا گئی تو اس کے سرخیل اور سرکردہ افراد نے قوم کی موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اے صالح ! اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے تو کوئی نشانی دکھا تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ نشان آنے کے بعد بھی تم انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو قوم کے ان سرداروں نے بتاکید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہی سے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشان چاہتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ سامنے والے پہاڑ میں سے یا بستی کے اس پتھر میں سے جو کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر جو گابھن ہو اور فوراً بچہ دے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں دعا کی اور اس وقت ان سب کے سامنے پہاڑ یا پتھر میں سے حاملہ اونٹنی ظاہر ہوگئی اور اس نے بچہ دیا یہ دیکھ کر ان سرداروں میں سے جندع بن عمرو تو اسی وقت مشرف بااسلام ہوگیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں کے مہنتوں ذواب بن عمرو اور ان کے کاہن رباب بن صغر نے ان کو اس سے باز رکھا اور اس طرح باقی دوسروں کو بھی اسلام لانے سے روکا۔ اب صالح (علیہ السلام) نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہہ کی کہ دیکھو یہ نشان تمہاری طلب پر بھیجا گیا ہے اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو اور ایک دن اس ناقہ کا ہوگا اور ایک دن ساری قوم اور اس کے سارے چوپائوں کا اور خبردار کہ اس اونٹنی کو کوئی اذیت نہ پہنچے اگر اس کو آزار پہنچا تو پھر تمہاری بھی خیر نہیں ہے۔ قوم نے اگرچہ اس حیرت زا معجزہ کو دیکھ کر ایمان قبول نہ کیا لیکن دلوں کے اقرار نے اس کو آزار پہنچانے سے باز رکھا اور یہ دستور جاری رہا کہ پانی کی باری ایک روز ناقہ کی رہتی اور تمام قوم اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتی اور دوسرے روز قوم کی باری ہوتی اور ناقہ اور اس کا بچہ بغیر روک ٹوک کے چراگاہوں میں چرتے اور آسودہ رہتے مگر آہستہ آہستہ یہ بات بھی ان کو کھٹکنے لگی اور آپس میں صلاح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کردیا جائے تو اس باری والے قصے سے نجات ملے کیونکہ ہمارے چوپائوں کیلئے اور خود ہمارے اپنے لئے یہ قید ناقابل برداشت ہے۔ یہ باتیں اگرچہ ہوتی رہتی تھیں لیکن کسی کو اس کے قتل کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی مگر ایک حسین و جملہ مالدار عورت ” صدوق “ نے خود ایک شخص ” مصدع “ کے سامنے اور ایک دوسری مالدار عورت ” غیزہ “ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی کو قیدار کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگر وہ دونوں ناقہ کو ہلاک کردیں تو یہ تمہاری ملک ہیں تم ان کو بیوی بنا کر عیش کرو۔ آخر قیدار بن سالف اور مصدع کو اس پر آمادہ کرلیا گیا اور طے پایا کہ وہ راہ میں چھپ کر بیٹھ جائیں اور ناقہ جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کردیں اور چند دوسرے آدمیوں نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔ غرض ایسا ہی کیا گیا اور ناقہ کو اس طرح سازش کر کے قتل کر ڈالا اور پھر آپس میں حلف کیا کہ رات ہونے پر ہم سب صالح اور اس کے اہل و عیال کو بھی قتل کردیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلائیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہے اور بچہ یہ دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور چیختا اور بولتا ہوا پہاڑی میں غائب ہوگیا۔ صالح (علیہ السلام) کو جب یہ خبر ہوئی تو حسرت و افسوس کے ساتھ قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آخر وہی ہوا جس کا مجھے خوف تھا اب اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو تین دن کے بعد تم کو ہلاک کر دے گا اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اور اس نے رات میں سب کو تباہ کردیا اور آنے والے انسانوں کو تاریخی عبرت کا سبق دیا۔ ان دونوں کہانیوں پر خود غور فرما لیں ان کا صدق و کذب آپ پر واضح ہوجائے گا لیکن اس میں جو صالح (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے اہل و عیال کے قتل کی سازش کا ذکر ہے چونکہ اس کا ذکر قرآن کریم اور صحیح احادیث میں بھی ہے اور ان مقامات سے گزرتے وقت ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے جہاں ثمود قوم پر عذاب آیا اس کا بیان بھی احادیث صحیحہ میں ہے اس لئے اس کو ساتھ ملا کر بیان کرنے سے باقی ساری کہانی میں بھی وزن پیدا کرلیا گیا اور یہ بات یہود و نصاریٰ کے ہاں اتنی عام ہے کہ ایسی باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس کیلئے دفتر درکار ہیں۔ تاہم ہماری یہ کوشش ہے کہ حتی الامکان اپنے اپنے مقام پر اس کی نشاندہی کی جائے اس لئے یہاں بھی ذکر کردیا اور پیچھے سے کرتے آ رہے ہیں۔ افسوس کہ بعض مفسرین نے انہی اسرائیلیات کو اپنی تفسیروں میں بھر دیا اور یہ اس طرح ان کی نشان دہی بھی نہ کی گئی جس وجہ سے آج وہ ساری روایات اسلام کے نام سے متعارف ہو کر رہ گئیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صالح (علیہ السلام) سے ثمود قوم کو ضد تھی جیسا کہ سارے رسولوں سے ان کی قوموں کی اکثریت کو تھی۔ منکرین نے صالح (علیہ السلام) کا مکمل بائیکاٹ کیا اس میں آپ کے جانوروں اور خصوصاً آپ کی اونٹنی کو بھی چارہ پانی سے روکنے کی سازش کی اور ظاہر ہے کہ ظلم و ستم کی انتہا ہے کہ کسی انسان کو خواہ وہ کوئی ہو انسانی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے لیکن مخالفت میں یہ سب کچھ ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے حالانکہ رب العالمین کو یہ کبھی نہ پسند تھا نہ ہی آج ہے لیکن اس کے باوجود کہ تم نے خواہ کتنا ہی تنگ کیا ہو کسی نبی و رسول نے تبلیغ کا کام بند نہیں کیا یہی حالت صالح (علیہ السلام) کی تھی کہ قوم کی ساری زیادتیوں کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور انجام کار قوم نے تنگ آ کر کوئی فیصلہ کن نشانی طلب کیا۔ ہاں ! غور کرو کہ قوم صالح (علیہ السلام) کو دکھ دے دے کر تنگ آگئی لیکن صالح (علیہ السلام) قوم کے دکھ سہہ سہہ کر تنگ نہیں پڑے۔ صالح (علیہ السلام) نے وحی الٰہی کے مطابق اس اونٹنی کو بطور نشانی مقرر کردیا اور پوری قوم کو انتباہ کردیا کہ ” یہ ناقۃ اللہ تمہارے لئے ایک نشانی ہے اگر تم نے آئندہ اس کو کوئی گزند پہنچایا تو بس وہ وقت تمہاری ہلاکت کا وقت ہوگا۔ قوم کے چند سرغنوں نے جن کی تعداد قرآن کریم میں نو (9) بتائی گئی ہے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی جو ناکام ہوگئی اور ازیں بعد مخالفت میں مزید اضافہ ہوگیا اور آخر کار پوری قوم ثمود سوائے ان چند آدمیوں کے جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے آپ کی اس نشان شدہ اونٹنی کو قتل کرنے کے درپے ہوئے اور بالآخر اس کو قتل کردیا اس طرح انہوں نے عذاب الٰہی کو خود دعوت دے دی اور اس دعوت دیئے گئے عذاب نے تین دن کے اندر ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ صالح (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھی وہاں سے ہجرت کرچکے تھے اور باقی قوم کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ چکے اونٹنی کو قتل کردینے کے بعد صالح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے تین دن کی مہلت دی۔ قوم نے اس سے بھی کچھ فائدہ حاصل نہ کیا۔ حاصل کلام یہ کہ صالح (علیہ السلام) مع اپنے ساتھیوں کے وہاں سے ہجرت کر گئے اور ان تین دنوں کے بعد وہ موعود وقت آپہنچا اور رات کے وقت ” ایک ہیبت ناک آواز “ نے ہر شخص کو اس حالت میں ہلاک کردیا جس حالت میں وہ اس وقت تھا۔ قرآن کریم نے ایسی ہلاکت آفریں آواز کو کسی مقام پر ” صاعقہ “ یعنی کڑک دار بجلی اور سکی جگہ ” رجفہ “ یعنی زلزلہ ڈال دینے والی چیز اور بعض جگہ ” طاغیہ “ یعنی دہشت ناک اور بعض جگہ ” صیحہ “ یعنی سخت چیخ سے تعبیر فرمایا اس لئے کہ یہ تمام تعبیرات ایک ہی حقیقت کے مختلف اوصاف کے اعتبار سے کی گئی ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گوناگوں تھیں۔ تم ذرا ایسی کوندنے والی بجلی کا تصور کرو جو بار بار اضطراب کے ساتھ چمکتی ، کڑکتی اور گرجتی ہو اور وہ اس طرح کوند رہی ہو کہ کبھی مشرق میں ہے تو کبھی مغرب میں اور جب ان تمام صفات کے ساتھ چمکتی ، کڑکتی ، کوندتی ، گرجتی ، لرزتی اور لرزاتی ہوئی کس مقام پر ایک ہولناک چیخ کے ساتھ گرے تو اس مقام اور اس کے گرد و نواح کا کیا حال ہوگا ؟ یہ ایک معمولی اندازہ ہے اس عذاب کا جو ثمود پر نازل ہوا اور ان کو اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے سرکشوں اور مغروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کیلئے آنے والی نسلوں کے سامنے بطور عبرت پیش کر گیا۔ ایک طرف ثمود قوم پر یہ عذاب نازل ہوا اور دوسری طرف صالح علہط السلام اور ان کے متبعین مسلمانوں کو وہاں سے ہجرت کرا کر اللہ نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ان کو اس عذاب سے بالکل محفوظ رکھا۔ صالح (علیہ السلام) حزن و ملال کے ساتھ ہلاک شدگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمان لگے : ” اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تمہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر افسوس تم پر ! تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ “ (الاعراف 7 : 79) ہلاک شدہ قوم کی جانب صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اپنے اندر بہت موعظت رکھتا ہے بشرطیکہ کوئی نصیحت حاصل بھی کرنا چاہئے۔ اس طرح کا خطاب ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ نے بدر میں مشرکین کے سرداروں کی ہلاکت کے بعد مردہ نعشوں کے گڑھے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ : یا فلاں بن فلاں و فلاں بن فلاں ایسرکم انکم اطعتم اللہ ورسولہ فانا قدوجدنا ما وعدنا ربنا حقا فھل وجد تم ما وعد ربکم حقا (بخاری ج 2 کتاب المغازی) ” اے فلاں بن فلاں بن دے فلاں بن فلاں کیا تم کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پسند آئی ؟ بلاشبہ ہم نے وہ سب کچھ پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا پس کیا تم نے بھی وہ پایا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ؟ “ لیکن ہمارے علمائے کرام نے اس سے دور از کار بحیثیں شروع کردیں اور چلتے چلتے اتنا دور نکل گئے کہ اس سے انبیائے عظام (علیہ السلام) اور اولیائے کرام (رح) اور بزرگان دین اور مرنے والے پیشوایان اسلام کے سننے اور جواب دینے کے مسائل استنباط کرنے شروع کردیئے اور یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اور نبی کریم ﷺ کا یہ خطاب کفار کے مردوں سے ہے اس کا تعلق انبیائے عظام (علیہ السلام) اور اولیائے کرام (رح) سے کیا ؟ کیونکہ یہ طریق خطاب حزن و ملال کے اظہار کے لئے ہوتا ہے مثلاً تم نے کسی شخص کو متنبہ کیا کہ اس جنگل میں نہ جانا اس میں سانپ بڑی کثرت سے ہیں ، ڈسے جانے کا خطرہ ہے مگر وہ شخص جنگل میں گیا اور ڈسا گیا اور موت کی گھاٹ اتر گیا تو جب یہ تنبیہہ کرنے والا شخص اس کی نعش پر پہنچتا ہے تو بےساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ افسوس ! کیا میں نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ اس جنگل میں نہ جانا ورنہ ڈسا جائے گا آخر وہی ہوا بلاشبہ اس وقت مرنے والا سن تو نہیں رہا ہوتا لیکن اس طرح کا خطاب فطرت انسانی کا ایک تقاضا ضرور ہے اور یہ بھی کہ زندہ لوگ اس کو سن کر عبرت حاصل کرتے ہیں اور اس بات سے بچتے ہیں جس سے مرنے والے کو روکا گیا تھا اس لئے وہ بات ان کیلئے مفید ہوجاتی ہے اور اس طرح کا سلسلہ کلام ہر زبان و ماحول میں معروف ہے ایسی باتوں کے پیچھے وہی لوگ پڑتے ہیں جن کے دلوں میں زیغ اور ٹیڑھ موجود ہوتی ہے اور اس کا علاج اللہ ہی کے پاس ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر جب نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کا گزر حجر پر سے ہوا تو صحابہ کرام ؓ نے ثمود کے ایک کنوئیں سے پانی بھرا اور آٹا گوندھ کر روٹیاں تیار کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو پانی گرا دینے اور ہانڈی اوندھی کردینے اور آٹا بیکار کردینے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جس پر اللہ کا عذاب ہوا۔ یہاں نہ قیام کرو اور نہ ہی اس جگہ کی اشیاء سے فائدہ اٹھائو آگے بڑھ کر پڑائو ڈالو ایسا نہ ہو کہ تم بھی کسی بلا کا شکار ہو جائو اور بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم حجر کی ان بستیوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے ، عجز وزاری کرتے ہوئے اور روتے ہوئے داخل ہوا کرو یا ان میں بالکل داخل نہ ہوا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اپنی غفلت کی وجہ سے کسی عذاب یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائو۔ اور آپ ﷺ کے ارشاد گرامی سے ہمیں یہ راہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ : 1۔ ایسے مقامات جہاں اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوچکے ہوں حتیٰ المقدر جانے سے باز رہیں۔ 2۔ اگر کسی وجہ سے جانا ہو تو وہاں سے عبرت حاصل کریں اور دل میں خوف رکھیں۔ 3۔ ان جگہوں کو سیر و تفریح کے مقامات نہ بنائیں بلکہ نشان عبرت سمجھیں۔ 4۔ بری مجلسوں ، تماشہ گاہوں ، سینموں ، تھیٹروں ، بدکاری کے اڈوں ، قحبہ خانوں ، چرسیوں ، بھنگیوں اور نشہ کرنے والوں سے گریز کریں اور ان کے ساتھ میل جول ، دوستی یاری اور دلی لگائو بالکل نہ رکھیں۔ 5۔ جس جگہ آسمانی بجلی گری ہو اس جگہ کی چیزیں استعمال کرنے سے گریز کریں بلکہ ان کو تلف کردیں۔ 6۔ جہاں زہریں گرائی گئی ہوں ، ان کے اثرات دور ہونے کی مدد تک ان کو استعمال کرنے سے بچیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ رہی یہ بات کہ قوم کی ہلاکت کے بعد صالح (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والے لوگوں نے مستقل رہائش کہاں اختیار کی سو اس معاملہ میں سب سے پہلی بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ کوئی نبی و رسول ہجرت کر جانے کے بعد دوبارہ اس علاقہ میں کبھی مستقل آباد نہیں ہوا عارضی طور پر آنا جانا دوسری بات ہے اس لئے یقیناً صالح (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والے ثمود قوم کی ان بستیوں میں یقیناً آباد نہ ہوئے تھے پھر آخر وہ آباد کہاں ہوئے ؟ اس سوال کا جواب یقینی اور حتمی طور پر تو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں مورخین کا اختلاف ہے اور اس کی تحقیق کی چنداں ضرورت بھی نہیں تاہم علمائے تفسیر نے اس کے مختلف جواب دیئے ہیں جن میں سے دو ، تین کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ 1۔ یہ کہ وہ فلسطین کے علاقہ ” رملہ “ کے قریب آباد ہوئے اس لئے کہ حجر کے قریب یہی مقام ایسا تھا جو سرسبز و شاداب اور مویشیوں کے چارہ پانی کیلئے بہترین تھا اور اپنے اصل وطن کے قریب بھی۔ (خازن) ۔ 2۔ وہ حضرموت میں آ کر آباد ہوئے اس لئے کہ ان کا اصلی وطن یہی تھا کیونکہ وہ احقاف ہی کا ایک حصہ ہے اور عاد اولیٰ کا اصل وطن یہی تھا اور ثمود قوم وہی عاد اولیٰ کی اولاد ہیں اس لئے ان کو عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے اور اصل وطن کی محبت بہرحال دل میں گدگداتی رہتی ہے۔ 3۔ صالح (علیہ السلام) قوم کی ہلاکت کے بعد مستقل سکونت اختیار کرنے کیلئے مکہ مکرمہ چلے آئے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ” بیت اللہ “ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی پہلے موجود تھا اگرچہ اس وقت وہ منہدم ہوچکا ہو اور وہاں لوگوں کی آبادی بھی تھی اور صالح (علیہ السلام) کی قبر وہیں حرم میں کعبہ سے غربی جانب تھی۔ سید آلوسی (رح) نے اپنی تفسیر میں اس قول کی رعایت کی ہے اور اس کو صحیح تسلیم کیا ہے اور صحیح حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے۔ تذکیر و نصیحت حاصل کرنے کیلئے ان قصص کو قرآن کریم کی زبان میں پڑھنا اور اس کے ترجمہ پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ متن قرآن کریم ہر جگہ موجود ہے اور مسلمانوں کا حرز جاں ہے۔ خوش الحانی کے ساتھ اس کی تلاوت ثواب اور سمجھ سوچ کر پڑھنا خیر و برکت کا موجب ہے۔ اس جگہ قرآن کریم کے مختلف مقامات پر صالح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم جو قوم ثمود کے نام سے بھی معروف ہے جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ نصیحت و موعظت کرنے والے دل اس سے نصیحت حاصل کرسکیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی کا ترجمہ اس طرح ہے : ” اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح (علیہ السلام) کو بھیجا ، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کے بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ دیکھو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل ” بینۃ “ تمہارے سامنے آ چکی ہے۔ یہ اللہ کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لئے ایک فیصلہ کن نشانی (الکم ایۃ) ہے پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں وہ چرے چگے۔ اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائو کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے گا اور وہ وقت یاد رکھو کہ اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد اس کا جانشین بنایا اور زمین میں اس طرح تم کو بسا دیا کہ میدانوں سے محل بنانے کا کام لیتے ہو اور پہاڑوں کو بھی تراش کر اپنا گھر بنا لیتے ہو۔ پس اللہ کی (یہ) نعمتیں یاد کرو اور ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلائو۔ “ قوم کے جن سربرآوردہ لوگوں کو (اپنی دولت و طاقت کا) گھمنڈ تھا انہوں نے مومنوں سے کہا اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں وہ (افلاس کی وجہ سے) کمزور و حقیر سمجھتے تھے۔ کیا تم نے سچ مچ کو معلوم کرلیا ہے کہ صالح اللہ کا بھیجا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! بلاشبہ جس پیام حق کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے ہم اس پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں۔ اس پر گھمنڈ کرنے والوں نے کہا ، تمہیں جس بات کا یقین ہے ہمیں اس سے (مکمل طور پر) انکار ہے۔ غرضیکہ انہوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی ، انہوں نے کہا اے صالح ! اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو تو اب وہ بات ہم کو لا دکھائو جس کا تم نے ہمیں خوف دلایا تھا۔ پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آ لیا اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ پھر صالح (علیہ السلام) ان سے کنارہ کش ہوگیا ، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیام تمہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر افسوس تم پر ! تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ “ (الاعراف 7 : 73 تا 79) ” اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اور کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اس میں تمہیں بسایا۔ پس چاہئے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع ہو کر رہو ، یقین کرو میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے اور (ہر ایک کی) دعائوں کا جواب دینے والا ہے۔ لوگوں نے کہا ، اے صالح (علیہ السلام) ! پہلے تو تو ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ، پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں (یہ کیسی بات ہے ؟ ) ہمیں تو اس میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنی رحمت مجھے عطا فرمائی ہو تو پھر کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں میری مدد کرے گا اگر میں اس کے حکم سے سرتابی کروں ؟ تم مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہو اور اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی (یعنی اس کے نام پر چھوڑی گئی) تمہارے لئے ایک نشانی ہے پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی چگتی رہے ، اسے کسی طرح کی اذیت نہ پہنچائو ورنہ فوراً تمہیں عذاب آپکڑے گا۔ لیکن لوگوں نے (ضد میں آ کر) اسے ہلاک کر ڈالا۔ تب صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تمہیں تین دن کی مہلت ہے اپنے گھروں میں کھا پی لو۔ یہ وہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہ نکلے گا۔ “ پھر جب ہماری بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے صالح (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دے دی۔ (اے پیغمبر اسلام ! ) تیرا پروردگار ہی ہے جو قوت والا اور سب پر غالب ہے اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا یہ حال ہوا کہ ایک زور کی کڑک ” الصیحۃ “ نے آ لیا جب صبح ہوئی تو سب کے سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے (وہ اس طرح اچانک مر گئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے تو سن رکھو ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری (کفروا) کی اور ہاں ! سن رکھو کہ ثمود کیلئے محرومی ہوئی۔ “ ( سورة ہود 11 : 61 تا 68) ” اور دیکھو حجر کے لوگوں نے بھی رسولوں کی بات جھٹلائی ، ہم نے اپنی نشانیاں انہیں دکھائیں مگر وہ روگردانی ہی کرتے رہے۔ وہ پہاڑ تراش کر گھر بناتے تھے کہ محفوظ رہیں لیکن ایک دن صبح کو اٹھے تو ایک ہولناک آواز نے آپکڑا تھا اور جو کچھ انہوں نے اپنی سعی و عمل سے کمایا تھا وہ کچھ بھی ان کے کام نہ آیا۔ “ (الحجر 15 : 80 تا 84) ” ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا یاد کرو جب ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا ، کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ، کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان جو یہاں ہیں بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیئے جائو گے ؟ ان باغوں اور چشموں میں ؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں ؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، ان بےلگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے۔ تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے ؟ لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے ؟ صالح (علیہ السلام) نے کہا ، یہ اونٹنی ہے ایک دن میں ایک باری پانی پینے کی اس کیلئے ہے اور ایک دن ایک باری تم سب کی ہے اس کو ہرگز نہ چھیڑنا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو آ لے گا ، مگر انہوں نے اس کو کونچیں کاٹ دیں (قتل کردیا) اور آخر کار پچھتاتے رہ گئے کہ عذاب نے انہیں آ لیا۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور پیار کرنے والا بھی۔ “ (الشعرا 26 : 141 تا 159) ” اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو تو یکایک وہ دو متخاصم فریق بن گئے ، صالح (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! بھلائی سے پہلے برائی کیلئے کیوں جلدی مچاتے ہو ؟ کیوں نہیں اللہ سے مغفرت طلب کرتے ؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے ؟ انہوں نے کہا ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے جواب دیا تمہارے نیک و بدشگون کا سر رشتہ تو اللہ کے پاس ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے ؟ اور اس شہر میں نو (9) سردار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ اللہ کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے پھر اس کے دل سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کے موقع پر موجود نہ تھے ، ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔ یہ چال تو وہ چلے لیکن ہم نے ان کی چال کو ناکام بنا کر رکھ دیا اور ان کو معلوم بھی نہ ہوا (کہ ان کی چال کیسے ناکام ہوگئی ؟ ) پس دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا ہم نے ان (صالح (علیہ السلام) کے تباہ کرنے والوں کو) تباہ کر کے رکھ دیا ، ان کو اور ان کی پوری قوم کو۔ ان کے گھر خالی پڑے ہیں ، اس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے اس میں ایک نشان عبرت ہے ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں اور بچالیا ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے بچتے تھے۔ “ (النمل 27 : 44 تا 53) ” اے ثمود ! تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہوں نے راستہ دیکھنے کی بجائے اندھا بنا رہنا پسند کیا ، آخر ان کے کرتوتوں کی بدولت ذلت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے۔ “ (حم السجدہ 41 : 17 ، 18) ” اور (تمہارے لئے نشان ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو مگر اس تنبیہہ پر بھی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخر کار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آ لیا۔ پھر نہ ان میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔ “ (الذاریات : 51 : 43 تا 45) ” اور ثمود کو ایسا مٹایا کہ ان میں سے کسی (ظالم کو) باقی نہ چھوڑا۔ (النجم 53 : 51) ” ثمود نے (ہماری) تنبیہات کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ وہ (صالح (علیہ السلام) ایک اکیلا آدمی ہے جو ہم ہی میں سے ہے کیا ہم اس کے پیچھے چلیں ؟ اس کا اتباع ہم قبول کرلیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم بہک گئے ہیں اور ہماری عقل ماری گئی ہے ، کیا ہمارے درمیان یہی ایک شخص تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کیا گیا ؟ نہیں ، ہرگز نہیں بلکہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا اور شرارتی ہے۔ (ہم نے اپنے رسول سے کہا کہ) کل ہی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون پرلے درجے کا جھوٹا اور کون شرارتی ہے ؟ ہم (تیری) اونٹنی کو ان کیلئے فتنہ بنا کر بھیج رہے ہیں ، اب ذرا صبر کے ساتھ دیکھ کہ ان کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ ہاں ! (تو) ان کو جتا دے کہ پانی ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم ہوگا اور ہر ایک اپنی باری کے وقت پانی پر آئے گا۔ آخر کار ان لوگوں نے اپنے آدمی کو پکارا اور اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا۔ پھر دیکھ لو کہ کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات۔ بلاشبہ ہم نے ان پر بس ایک دھماکہ چھوڑا (صیحۃ واحدۃ) ” اور وہ باڑ لگانے والے کی سوکھی روندی ہوئی باڑ کی طرح ہوگئے۔ “ (القمر 54 : 23 تا 31) ” پس رہے ثمود تو وہ ایک سخت حادثہ (الطاغیہ) سے ہلاک کئے گئے۔ “ (الحاقۃ 69 : 5) ” ثمود نے اپنی سرکشی کی بناء پر جھٹلایا ، جب اس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی بپھر کر اٹھا تو اللہ کے رسول (صالح (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ خبردار ہو جائو اللہ کی اونٹنی (پر ہاتھ نہ بڑھانا) اور اس کے پانی پینے (میں مانع نہ ہونا) مگر انہوں نے اس کی بات کو جھوٹا قرار دیا اور اونٹنی کو مار ڈالا آخر کار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ ہی سب کو پیوند خاک کردیا اور اسے (اللہ کو) کسی برے نتیجے کا کوئی خوف نہیں ہے۔ “ (الشمس 91 : 11 تا 15) صالح (علیہ السلام) کی اس دعوت کو مزید اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قارئین کیلئے ذہن نشین کرنا آسان ہوجائے اگر اس کو کئی صاحب ذہن نشین کرنا چاہیں کیونکہ ذہن نشین ہمیشہ وہی بات ہو سکتی ہے جس کے ساتھ کچھ دلچسپی ہو باقی سب آئیں بائیں شائیں ہوجاتا ہے اور کان ایک طرف سنتے ہیں تو دوسری طرف سے نکال دیتے ہیں۔ اللہ کرے کہ اللہ اور اس کے رسولوں کی باتوں سے ہماری دلچسپی پیدا ہوجائے اور جھوٹ سے ہمیں نفرت ہو۔ 1۔ صالح (علیہ السلام) کا ظہور قوم ثمود میں ہوا جو قوم عاد کا بقیہ یعنی عاد ثانی بھی کہلائی۔ 2۔ صالح (علیہ السلام) نے قوم سے جو پہلا خطاب فرمایا وہ یہی تھا کہ میری قوم کے لوگو ! تم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ 3۔ غور کرو ، کون ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ؟ یعنی ایسی چیز سے پیدا کیا جو زمین کی مٹی کا خمیر تھی (گویا یہ ابتدائی پیدائش کا ذکر ہے جو اصل تھی اور کسی کی نسل نہ تھی۔ ) 4۔ دعوت توحید کو جاری رکھتے ہوئے قوم کو سمجھایا کہ دیکھو کہ اللہ نے تم سے اس زمین کی آبادی اور رونق بنا دی ؟ کیا پروردگار عالمین کے سوا کوئی ایسا ہو سکتا ہے جو ایسا کرسکتا ؟ پھر غور کرو کہ کیا وہی اس کا مستحق نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے ؟ 5۔ میری قوم کے لوگو ! سرکشی سے باز آ جائو اور صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ 6۔ قوم نے کہا کہ اے صالح ! ہمیں تو تمہاری ذات سے بڑی امیدیں تھیں کہ ہماری سرداری اور پیشوائی کو چار چاند لگا دو گے ، یہ تمہیں کیا ہوگیا کہ ہمارے بزرگوں کے طریقے کو برا کہتے ہو اور اس سے ہمیں ہٹانا چاہتے ہو ؟ 7۔ قارئین ذرا غور کرو کہ ہمیشہ یہ بات دیکھی گئی ہے اور اب بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ جب کبھی ایک غیر معمولی قابلیت کا آدمی قوم میں پیدا ہوتا ہے تو لوگ اس کی قابلیت کو سراہتے ہیں اور اس سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشوا ہوگا ، باپ دادا کا نام روشن کرے گا لیکن جب وہ کوئی ایسی بات کہہ دیتا یا کر بیٹھتا ہے جو ان کے طور طریقے کے خلاف ہوتی ہے تو لوگ اس سے فوراً گردن موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نکما نکلا کہ ہماری ساری امیدیں خاک میں ملا دیں اور باپ دادا کا نام بدنام کیا ، گویا بزرگی اور پیشوائی کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جو بات حق معلوم ہو اس کی لوگوں کو دعوت دی جائے بلکہ بزرگی اور پیشوائی یہ ہے کہ لوگ جسے حق سمجھتے ہیں اس کی پیروی کی جائے اور اس کی طرف بڑھ چڑھ کر لوگوں کو دعوت بھی دی جائے۔ قرآن کریم نے قوم ثمود کا جواب نقل کیا ہے اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا تم غور نہیں کرتے کہ اگر ایک شخص پر اللہ نے علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ سچائی وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہے خواہ وہ عوام ہوں یا خواص تو پھر کیا محض لوگوں کے پاس خاطر سے اس کا اظہار نہ کرے ؟ اچھا اتنا ہی بتلا دو کہ اگر وہ حکم حق سے سرتابی کرے تو کوئی ہے جو اللہ کے مواخذے سے اس کو بچا لے ؟ اگر میں محض اس خیال سے کہ تمہاری امیدوں کو ٹھیس نہ لگے سچائی کا اعلان نہ کروں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ میں اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دوں۔ سچائی کا اعلان نہ کروں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ میں اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دوں۔ پالتوں جانوروں کو اپنے تراشیدہ معبودوں کے نام پر چھوڑ دینے کا طریقہ تو بہت قدیم ہے۔ بابل اور ہندوستان میں بھی اس کا سراغ ہزاروں برس بیشتر تک ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کے لوگ اپنے تراشیدہ معبودوں کے نام پر جانور چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی خالصتاً اللہ کے نام پر ایک (92)…… اونٹنی چھوڑ دی اور اس معاملہ میں قوم کے اتباع حق کی آزمائش ہوگئی۔ اگر وہ اونٹنی کو ضرر نہ پہنچاتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ ان کے دل ہدایت کے آگے جھک گئے ہیں مگر ان کے اندر خدا پرستی کے خلاف ضد اور شرارت پیدا ہوگئی کہ اتنی سی بات بھی وہ نہ مان سکے اور اونٹنی کو زخمی کر کے ہلاک کر ڈالا۔ 10۔ صالح (علیہ السلام) کی دعوت سے یہ بات روز روشن سے بڑھ کر ثابت ہوئی کہ جو قوم اپنے نبی و رسول سے اس وعدہ پر نشان طلب کرے کہ اگر ان کا مطلوبہ نشان ظاہر ہوگیا تو وہ ضرور ایمان لے آئیں گے اور پھر وہ ایمان نہ لائیں تو اس قوم کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ تائب ہوجائے۔ 11۔ انسان کیلئے یہ مہلک غلطی نفس کا دھوکا ہے کہ کوئی انسان خوش عیش ، رفابیت اور دنیوی جاہ و جلال کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ جس قوم یا جس فرد کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے سایہ میں ہے اور یہ کہ ان لوگوں کی یہ خوش عیشی اس کی علامت ہے کہ اللہ کی خوشنودی ان کے ساتھ ہے۔ 12۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات زیادہ سے زیادہ رفاہیت اور خوش عیشی زیادہ سے زیادہ عذاب و ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اگرچہ قوموں کیلئے اس کی مدت چند ماہ یا چند سال نہیں بلکہ گھبرا دینے والی مدت ہی کیوں نہ ہو۔ 13۔ ہمہ قسم کی دنیوی کامرانیوں اور خوش عیشیوں کے ساتھ ساتھ جب ظلم ، سرکشی ، غرور اور مکر و فریب کسی قوم کا مستقل شعار بن جائے تو سمجھو کہ اس کی تباہی و ہلاکت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے جو کسی وقت بھی اس کو اچک سکتی ہے۔ 14۔ اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں اور اللہ کے عذاب کا کوڑا بہت ہی سخت ہے جب وہ قوم پر برس پڑتا ہے تو کوئی چیز اس قوم کو اس سے بچا نہیں سکتی اس لئے کہ وہ سب زور آوروں سے زیادہ زور آور ہے۔ 15۔ معذب قوموں کے علاقوں سے گزرتے وقت احتیاط ، ہدایات اسلامی میں سے ایک اہم ہدایت ہے۔
Top