Urwatul-Wusqaa - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا ، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ تول میں کمی نہ کیا کرو ، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوشحال ہو ، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب پر چھا جائے
اہل مدین کی طرف شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا اور انہوں نے قوم کو توحید کا درس سنایا۔ ۔ 108 شعیب (علیہ السلام) کی بعثت مدین یا مدیان میں ہوئی تھی۔ مدین کسی مقام کا نام نہیں بلکہ ” قبیلہ “ کا نام ہے جو قبیلہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین کی نسل سے تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی قطورا کے بطن سے پیدا ہوا اس لئے حضرت ابرایم کا یہ خاندان بنی قطورا کہلایا۔ ” مدین “ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پہلو ہی میں حجاز میں آباد ہوگیا تھا۔ یہی خاندان آگے چل کر ایک بڑا قبیلہ بن گیا اور شعیب (علیہ السلام) بھی چونکہ اسی نسل اور اسی قبیلہ سے تھے اس لئے ان کی بعثت کے بعد یہ ” قوم شعیب “ کہلایا۔ مدین کی اولاد در اولاد جب بگڑ گئی تو اس میں کفر و شرک کے علاوہ اور بہت سی برائیاں پیدا ہوگئیں ان کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنی برائیاں پھیل چکی ہیں یہ تقریباً ساری کی ساری شعیب (علیہ السلام) کی قوم میں موجود تھیں۔ ان کی بہت سی بد اخلاقیوں اور نافرمانیوں سے قطع نظر جن قبیح امور نے خصوصیت کے ساتھ ان میں رواج پا لیا تھا وہ یہ تھے۔ ۔ 1 بت پرستی اور مشرکانہ رسوم۔۔ 2 خریدو فروخت میں پورا لینا اور کم تول کردینا۔ ۔ 3 تمام معاملات میں کھوٹ اور ملاوٹ اور ڈاکہ زنی وغیرہ ان کی ایسی ہی بیماریوں کے باعث غیرت حق حرکت میں آئی اور سنت اللہ کے مطابق ان کو راہ حق دکھانے ، فسق و فجور سے بچانے اور امین و متقی اور بااخلاق بنانے کے لئے ان ہی میں سے ایک ہستی کو چن لیا اور شرف نبوت و رسالت سے نواز کر اس کو دعوت اسلام اور پیغام حق کا امام بنایا یہ ہستی سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی ذات گرامی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور شرک سے بیزاری کا اعتقاد تو تمام انبیاء کرام کی تعلیم کی مشترک بنیاد اور اصل ہے جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے حصے میں بھی آئی تھی مگر قوم کی مخصوص بداخلاقیوں پر توجہ دلانے اور ان کو راہ راست پر لانے کے لئے انہوں نے اس قانون کو بھی اہمیت دی کہ خریدو فروخت کے معاملہ میں ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جو جس کا حق ہے وہ پورا پورا اس کو ملے کہ دنیوی معاملات میں یہی ایک ایسی بنیاد ہے جو متزلزل ہوجانے کے بعد ہر قسم کے ظلم ، فسق و فجور اور مہلک خرابیوں اور بد اخلاقیوں کا باعث بنتی ہے۔ مختصر یہ کہ شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کی بد اعمالیوں کو دیکھ کر سخت دکھ محسوس کیا اور رشد و ہدایت کی تعلیم دیتے ہوئے قوم کو انہی اصول کی طرف بلایا جو انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت و ارشاد کا خلاصہ ہے۔ انہوں نے فرمایا اے قوم ! ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کوئی پرستش کے قابل نہیں ہے اور خریدو فروخت میں ناپ تول کو پورا رکھو اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں کھوٹ نہ کرو ، کل تک ممکن ہے کہ تم کو ان بد اخلاقیوں کی برائیوں کا حال معلوم نہ ہوا ہو مگر آج تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی حجت ، نشانی اور برہان آچکی اب جہل و نادانی عفو و درگزر کے قابل نہیں ہے ، حق کو قبول کرو اور باطل سے باز آئو کہ یہی کامیابی اور کامرانی کی راہ ہے اور اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد نہ کرو جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح و خیر کے تمام سامان تم کو مہیا کردیئے اگر تم میں ایمان و یقین کی صداقت موجود ہے تو سمجھ جائو کہ یہی کامیابی اور فلاح و بہبود کی راہ ہے اور دیھو ایسا نہ کرو کہ دعوت حق کی راہ کو روکنے اور لوگوں کو لوٹنے کے لئے ہر راہ پر جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اس کو اللہ کی راہ اختیار کرنے پر دھمکیاں دینے لگو اور اس میں کج روی پیدا کرنے کے در پے ہو جائو اور اے قوم ! اس وقت کو یاد کرو اور اللہ کا احسان مانو کہ تم بہت تھوڑے تھے پھر اس نے امن و عافیت دے کر تمہاری تعداد کو بیش از بیش بڑھا دیا اور اگر تم باز نہ آئے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم کو بڑے دن کا عذاب اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
Top