Urwatul-Wusqaa - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں اور پھر اس سے وہ ہٹا لیں تو وہ یک قلم مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے
دیکھو جب ہم کسی کو رحمت کا مزہ چکھائیں اور پھر ہٹا لیں تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں 16 ؎ حالت بشری بھی بڑی عجیب چیز ہے کہ اگر مصیبت پیش آتی ہے تو فوراً مایوس ہوجاتا ہے اور راحت پیش آتی ہے تو بےپروا ہو کر ڈینگیں مارنے لگتا ہے۔ زیر نظر آیت میں انسان کی پوری زندگی کا نقشہ بالکل مختصر الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا گیا۔ فرمایا غور کرو کہ انسان کو اس دنیوی زندگی میں مختلف قسم کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کبھی اس کے مطلع حیات پر خوشی کے ستارے جگمگاتے ہیں اور کبھی اسے ایسی شکست سے دو چار ہونا پڑتا ہے جس کا اسے تصورتک بھی نہیں ہوتا ، کبھی وہ تندرست و توانا ہوتا ہے اور کبھی بیمار و رنجور ۔ ان مختلف حالات میں دو قسم کے انسانوں یعنی کافروں اور مومنوں کا جو طریق کار اور ردعمل ہوتا ہے اس کو یہاں بڑے موثر پیرایہ میں ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان اپنی بھلائی اور اپنے وقار کی خاطر بہتر راستہ اختیار کرسکے۔ انسانی نفسیات کا یہ ایسا حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے جس میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ۔ جو لوگ معرفہ اور نکرہ کے استعمال پر بضد ہوتے ہیں ان کو اس آیت کے الفاظ پر زیادہ غور کرنا چاہئے تاکہ ان کی فکری اور عملی صلاحیت بڑھے اور وہ حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز نہ کریں ۔ زیر نظر آیت میں ” الانسان “ کا لفظ آیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص انسان مراد نہیں بلکہ جنس انسان مراد ہے اور ” رحمت “ سے مرادصحت ، امن و عافیت ، اقبال مندی اور خوشحالی غرضیکہ ہر قسم کی نعمتیں مراد ہیں۔ ” یوس “ مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بالکل مایوس ہوجانے والا جسے حالات کے بہتر ہونے کی کوئی توقع باقی نہ رہے اور اس طرح ” کفور “ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت نا شکری کرنے والا ۔ پہلے جب اس کو گونا گوں نعمتوں سے نوازا گیا تھا تو اس نے کبھی اپنے خالق ومالک کا شکریہ ادا نہ کیا اور اب بھی جب کہ اس کی زندگی ایک گوشہ تاریک ہے لیکن کئی گوشے ایسے بھی تو ہیں جہاں سکون و طمانیت کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ تھوڑی سی تکلیف کے باعث اس کا دوسری ساری نعمتوں سے بھی آنکھیں بند کرلینا کیا یہ ناشکری نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور پھر یہ بھی غور کرو کہ اس کی زندگی کا جو گوشہ تاریک ہوا ہے اس تاریکی کو دور کرنے والا کون ہے ؟ تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کی بجائے مایوسی اور نا شکری پر کیوں اتر آیا ؟ یہ اس کی سمجھ داری ہے یا ناسمجھی ؟ ہم نے الفاظ میں اشارات کردیئے ہیں سمجھنا آپ کا اپنا کام ہے۔
Top