Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 227
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
الف۔ لام۔ میم۔ را۔ یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ امر حق ہے ، مگر اکثر آدمی ایسے ہیں کہ ایمان نہیں لاتے
٭٭٭ الف۔ لا … م … می … م … را… اے پیغمبر اسلام ! یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ امر حق ہے۔ مگر اکثر آدمی ایسے ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ 1 ؎ یہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون حروف مقطعات کے بعد بتایا گیا ہے کہ قرآن جو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا وہ حق ہے۔ 1 ؎ الف … لا … م می… م را حروف مقطعات ہیں جو قرآن کریم کی انتیس سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کا مفصل ذکر سورة البقرہ کی آیت اول میں کیا گیا اس لئے وہیں سے ملاحظہ فرمائیں۔ آیات کی نسبت جب اللہ تعالیٰ سے کردی گئی تو پھر اس کلام الٰہی کے محاسن اور خوبیوں کا کوئی اندازہ بیان کرسکے گا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ حق ہے اسی طرح اس کا کلام بھی یقینا حق ہے اس کیلئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت کیا ہے ؟ غور کرو کہ اتنی واضح اور کھلی بات بھی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آتی 2 ؎ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کے اعجاز بیان کے سامنے تو انہیں دم مارنے کی ہمت نہ تھی لیکن قرآن کریم کی دعوت کے تین بنیادی اصولوں سے انہیں اتنا شدید اختلاف تھا کہ وہ کسی قیمت پر ان کو ماننے کیلئے تیار نہ تھے۔ وہ تین بنیادی اصول کیا ہیں ؟ توحید الٰہی۔ 2۔ یوم قیامت ۔ 3۔ اور وحی الٰہی۔ یہ بات تو ان کی سمج میں نہ آتی تھی کہ ایک اللہ اتنی بڑی وسیع و عریض کائنات کے ان گنت مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ان کا یہ بیان اس طرح درج کیا ہے کہ : اجعل الا لھۃ الھا واحدا ان ھذا لشئی عجاب وانطلق الملاء منھم ان امشوا واصبرو علی الھتکم ان ھذا لشئی یرادہ (ص 38 : 5 ‘ 6)…“ کیا اس نے سارے خدائوں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ “ جب مشرکین مکہ کی یہ حالت تھی تو مزید پچھلی قوموں کا کیا حال ہوگا نیز غور کرو کہ جب کوئی قوم عقل و فکر سے کام لینا ترک کر دے تو اسکے عقائد و اعمال کا کیا حال ہوتا ہے ؟ اور یہی حالت آج بھی ہے اور انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔ 3 ؎ پھر وہ اپنے تخت پر نمودار ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا کہ ہر ایک اپنی ٹھہرائی ہوئی میعاد تک چلا جا رہا ہے۔ 4 ؎ وہی انتظام کر رہا ہے اور نشانیاں الگ الگ کر کے بیان کردیتا ہے تاکہ تمہیں یقین ہوجائے کہ اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔ 5 ؎ 2 قرآن کریم کا یہ کہنا کہ مرنے کے بعد تمہیں پھر زندہ کیا جائے گا اور قیامت کے روز تمہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہوگا تو اسکو بھی اپنی عقل و دانش کے خلاف یقین کرتے ہوئے اس کا انکار کرتے تھے۔ خیال رہے کہ اس عقل و دانش سے مراد وہی عقل و دانش ہے جو ان کو ان کے قومی نظریہ نے دی تھی جو آج کل بھی لوگوں کے پاس عام ہے بلکہ اس سے سارا کام چلایا جاتا ہے یہ فطری عقل و دانش کا بیان نہیں ہے۔ وہ یہ ماننے کیلئے بھی تیار نہ تھے کہ کوئی انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جس پر وحی نازل ہو۔ یہ تین شبہات ان کے دل میں اس طرح جڑ پکڑ چکے تھے کہ ان کی موجودگی میں آفتاب سے روشن دلائل کے سامنے بھی وہ سر جھکانے کو تیار نہ تھے اور جہالت کی سب سے بڑی اور عام نشانی یہی ہے اس وقت بھی تھی اور آج بھی ہے۔ بہرحال اس سورت میں انہی تین شبہات کو پرزور طریقہ سے دور کیا گیا ہے لیکن یہی وہ باتیں ہیں جن کو اکثریت سمجھنے سے قاصر ہے اور اکثریت نے انکو نہیں مانا تو محض اپنی اکثریت کے بل پر نہیں مانا اور آج بھی بیسیوں ایسے مسائل ہیں جو محض اکثریت کے بل پر مانے اور منوائے جاتے ہیں لیکن قرآن کریم بار بار اور پکار پکار کر کہتا ہے کہ اکثریت کسی زمنہ میں درست نہیں ہوئی اور اس نے ہمیشہ اپنا آپ منوانے کیلئے اپنی اکثریت ہی کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور اس میں وہ ہمیشہ حق بجانب رہی اور آج بھی ہے اور سارے و ڈیرے لوگ اس اکثریت کے بل پر ساری بد اعتدالیاں کر رہے ہیں وہ مذہبی ہوں یا سیاسی۔
Top