Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 10
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ
سَوَآءٌ : برابر مِّنْكُمْ : تم میں مَّنْ : جو اَسَرَّ : آہستہ کہے الْقَوْلَ : بات وَمَنْ : اور جو جَهَرَ بِهٖ : پکار کر۔ اسکو وَمَنْ : اور جو هُوَ : وہ مُسْتَخْفٍ : چھپ رہا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَسَارِبٌ : اور چلنے والا بِالنَّهَارِ : دن میں
تم میں سے کوئی چپکے سے کوئی بات کہے یا پکار کر کہے ، رات کی تاریکی میں چھپا ہو یا دن کی روشنی میں راہ چل رہا ہو ساری حالتیں اس کے لیے یکساں ہیں (اس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں)
اس کو چپکے سے بلائو یا پکار کر ‘ تاریکی میں یا روشنی میں سب برابر ہے 19 ؎ فرمایا کہ یہ سرد جہر ‘ پوشیدہ اور ظاہر ‘ تاریکی اور روشنی سب تمہاری یعنی انسانوں کی نسبت سے ہے اس کے علم کے اعتبار سے سب یکساں ہے۔ مشرک قوموں نے اپنے دیوی دیوتائوں ‘ محنت و پروہت ‘ پیرو مرشد کو بھی اپنے ہی محدود اور ناقص حواس اور قوتوں پر قیاس کیا ہے اس لئے اس کی اصلاح ضروری تھی۔ ” اسرالقول “ اسرار سے بنا ہے جس کے معیق خفیہ کلام اور جبر کے معنی اعلانیہ کلام کے ہیں جو کلام انسان کسی دوسرے کو سنانے کیلئے کرتا ہے اسے جہر کہتے ہیں اور جو خود اپنے آپ کو سنانیکیلئے کرتا ہے اس کو سر کہا جاتا ہے۔ اس سے سورة فاتحہ کا جہر اور سر ‘ نمازوں کا جہر اور سر ‘ باتوں کا جہر اور سر سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کیا ہے ؟ بہرحال اللہ کیلئے جہر اور سر کوئی چیز نہیں وہ دونوں کلاموں کو اور دونوں کے کلام کو یکساں طور پر سنتا اور جانتا ہے۔ اس طرح جو شخص رات کی اندھیری میں چھپا ہوا ہے اور جو دن کے اجالے میں کھلے راستے پر چل رہا ہے یہ دونوں اس کے علم اور قدرت کے اعتبار سے برابر ہیں کہ اس کے دست قدرت سے باہر نہیں اور مزید بیان آگے جاری ہے۔
Top