Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 9
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ
عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا ہر غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر الْكَبِيْرُ : سب سے بڑا الْمُتَعَالِ : بلند مرتبہ
وہ غیب اور شہادت کا جاننے والا ہے ، سب سے بڑا بلند مرتبہ ہے
وہی ہے جو غیب و شہادت کا جاننے والا ہے اور مرتبہ میں بھی سب سے بلند 18 ؎ ” غیب “ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے جو غیر اللہ میں ممکن نہیں اور مراد اس سے وہ چیز ہے جو انسانی حواس سے غائب ہو یعنی نہ آنکھ سے اس کو دیکھا جاسکے ‘ نہ کانوں سے سنا جاسکے ‘ نہ ناک سے سونگھا جاسکے ‘ نہ زبان سے چکھا جاسکے ‘ نہ ہاتھ سے چھو کر معلوم کیا جاسکے۔ گویا انسانی حواس خمسہ سے بالاتر اور شہادت اس کے بالمقابل وہ چیزیں جو انسانی حواس خمسہ کے ذریعہ معلوم کی جاسکیں مطلب یہ ہے کہ وہ ہر غیب کو اس طرح جانتا ہے جس طرح حاضر کو یعنی اس کے ہاں غیب و حاضر میں کوئی فرق نہیں پڑتا غیر اللہ کیلئے ہے خواہ وہ کوئی ہو ؟ ” الکبیر “ وہ ہے جو سب سے بڑا ہو اور ہرچیز اس سے نیچے ہو اور ” منعال “ وہ ہے جو اپنی قدرت اور طاقت کے باعث ہرچیز پر غالب ہو۔ مراد دونوں لفظوں سے یہ ہے کہ وہ مخلوقات کی صفات سے بالاو بلند اور اکبر ہے۔ کفارہ مشرکین اللہ تعالیٰ کیلئے اجمالی طور پر برائی اور کبریائی کا تو اقرار کرتے تھے مگر اپنے تصور فہم سے اللہ تعالیٰ کو بھی عام انسانوں پر قیاس کر کے اللہ کیلئے ایسی صفات ثابت کرتے تھے جو اس کی شان سے بہت بعید ہیں جیسے یہود و نصاریٰ نے اللہ کیلئے بیٹا ثابت کیا۔ کسی نے اللہ کیلئے انسان کی طرح جسم اور اعضاء ثابت کئے۔ کسی نے جہت اور سمت کو ثابت کیا حالانکہ وہ ان تمام حالات وصفات سے بالا و بلند اور منزہ ہے اور اس طرح اس کی طاقت اور قوت بھی انسانی تصور سے بالاتر ہے اس کی ذات ہو یا اس کی صفات کسی کو بھی انسانی ادراک و احاطہ میں نہیں دیا جاسکتا وہ اییت ان سمجھی اور ان پہچانی ذات ہے کہ اس کی پہچان کئے اس کے کاموں پر دھیان دینا چاہئے وہ اس طرح کہ جب کائنات موجود ہے اور اس کائنات کا یقینا کوئی ناظم و منتظم بھی ہوگا پھر وہ کون ہے ‘ کہاں ہے اور کیسا ہے ؟ اللہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد کا انتظام کرنے والا لیکن اس کو دیکھا نہیں جاسکتا اور جو دیکھا جائے وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی قدرت سب پر بالا اور سب پر حاکم ہے۔ وہی ہمہ داں ‘ ہمہ بیں اور وہی ہمہ تواں ہے۔ چونکہ دنیا کو صفات الٰہی میں سب سے زیادہ ٹھوکر لگی اور دنیا کی ساری قومیں اس کے علم وقدرت ہی کو سمجھتی رہیں لیکن وہ کسی کی سمجھ میں بہت کم ہی آیا اس لئے قرآن کریم ان عقائد کو بار بار صاف کرتا چلا جاتا ہے اور ان کی غلطیوں کی بار بار اصلاح کرتا ہے۔
Top