Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 19
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہ دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَاْتِ : اور لائے بِخَلْقٍ : مخلوق جَدِيْدٍ : نئی
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو ایک فعل عبث کی طرح نہیں بنا دیا ہے کسی مصلحت سے بنایا ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو ہٹا دے اور ایک نئی پیدائش نمودار کر دے
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ایک فعل عبث کے طور پر نہیں بنایا بلکہ خاص مقصد کے تحت بنایا 20 ؎ اوپر کچھ لوگوں کے اعمال کا ذکر کیا گیا تھا کہ انہوں نے اعمال تو کئے اور تھے بھی وہ اچھے اعمال لیکن انہوں نے بغیر آخرت پر ایمان لانے کے محض دنیاوی زندگی کی خوبیاں ‘ کامیابیاں ‘ کامرانیاں حاصل کرنے کیلئے کئے اس لئے دنیا میں بھی ان کا صلہ ان کو دے دیا گیا۔ اس کے بعد اب ذکر کیا جا رہا ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کتنے بڑے آسمانوں اور زمین کو بچھایا ہے لیکن صرف اتفاقیہ ایسا نہیں کیا یا ایسا ہوگیا بلکہ اتنا بڑا کام بھی کسی خاص مقصد کے تحت کیا گیا اگرچہ وہ مقصد سارے انسانوں کی سمجھ میں نہ آئے۔ اس لئے یہ آیت دلیل ہے اس دعویٰ کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات کو سن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانہ تخلیق حق پر قائم ہوا نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقفیت پر مبنی نہ ہو بلکہ محض ایک بےاصل قیاس گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو اسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے قرار و ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ امید کبھی پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ عمارت کیلئے مضبوط بنیاد بن سکے لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اسے ناکام ہونا ہی چاہئے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سن کر تمہیں حیرت کیوں ہوتی ہے کہ خدا کی اس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان کر زندگی بسر کرے گا اس کا پورا کارنامہ زندگی ضائع ہوجائے گا ؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختار ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو تو اس جھوٹ پر اس کے خلاف واقعہ مفروضے پر اپنے پورے نظام فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تو اس کیلئے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو ؟ اور دیکھو جو فیصلہ ہوچکا تو شیطان بولا بلاشبہ اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا ‘ سچا وعدہ ” وہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔ “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم فنا پذیر ہے جو قائم بالغیر ہے اور جو اس کو قائم کرنے والا ہے وہی خالق کائنات کہلاتا ہے اور پوری کائنات میں اس کا کوئی ساجھی اور شریک نیں س۔ تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر کے لے آنا کوئی مشکل کام نہیں ہے 21 ؎ ظاہر ہے کہ جس اللہ نے پہلی بار اس کائنات کو پیدا کیا اور وہ معرض وجود میں آگئی اب دوبارہ پیدا کرنا جو اس کے مثل کہلائے گی کیا مشکل ہے ‘ اگر مشکل تھا تو وہ پہلی بار پیدا کرنا تھا۔ کیا تمہارا پہلی بار پیدا کرنے کو دل مانتا ہے ؟ اگر مانتا ہے تو تم ہی بتائو کہ مشکل امر کو تم مانتے اور تسلیم کرتے ہو اور آسان پر تم کو تعجب ہے حالانکہ یہ بات تو اللہ رب العزت پر کوئی مشکل نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس بوڑھی دنیا میں کتنی قومیں آئیں اور چلی گئیں اس طرح تم کو بھی ایک دن چلے جانا ہے۔
Top