Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 23
وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ؕ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ
وَاُدْخِلَ : اور داخل کیے گئے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهِمْ : اپنا رب تَحِيَّتُهُمْ : ان کا تحفہ ملاقات فِيْهَا : اس میں سَلٰمٌ : سلام
اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے وہ باغوں میں داخل ہوگئے ان کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں ، اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ انہیں میں رہیں گے وہاں ان کے لیے دعاؤں کی پکار ہے کہ تم پر سلامتی ہو
مومنوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ تیار کر رکھا ہے وہ باغات میں سیر و تفریح کریں گے 24 ؎ مومنوں کیلئے جو کچھ تیار کیا گیا ہے اس کا نام اسلام کی زبان میں جنت ہے۔ اس مقام کا نام جو نیکوکار انسانوں کا دائمی گھر ہوگا قرآن کریم میں عموماً ” الجنۃ “ یعنی ایک باغ بتایا گیا ہے اور کہیں کہیں اس کو مناسب اضافتوں کے ساتھ بھی ادا کیا گیا ہے مثلاً ” جنۃ النعیم “ نعمت کا باغ ” جنۃ الخلد “ یعنی بقائے دوام کا باغ اور اس کو ” الجنۃ الفردوس “ ” روضۃ “ ” دارالخلد “ ” جنت عدن “ یعنی دائمی سکونت کے باغات ” دارالمقامۃ “ اور ” دارالسلام “ ام و سلامتی کا گھر۔ اس موجودہ دنیوی زندگی میں بھی اگرچہ لذتیں اور مسرتیں ہیں مگر جو چزیں یہاں نہیں ہے وہ بقائے دوام ہے۔ یہاں کی ہر لذت فانی ‘ عارضی اور ہر مسرت فانی ہے۔ یہاں خوشی کا کوئی ایسا ترانہ نہیں جس کے بعد غم و ماتم کا نالہ نہ ہو ‘ یہاں ہر پھول کے ساتھ کاٹنا ہے ‘ ہر روشنی کے ساتھ تاریکی ہی ‘ ہر وجود کے ساتھ فنا ‘ ہر سیری کے بعد بھوک اور ہر سیرابی کے بعد پیاس اور ہر فنا کے بعد محتاجی ہے۔ انسان ہزاروں مشکلیں اٹھانے اور ہزاروں صدمے سہنے کے بعد ایک مسرت کا پیغام سناتا ہے اور خوشی کا منظر دیکھتا ہے مگر ابھی اس سے سیر ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ غرض اس موجودہ عالم فانی کی ہر شے آنی جانی ہے اور یہی یہاں کی سب سے بڑی کمی ہے۔ لیکن جنت اس مملکت کا نام ہے جہاں کی راتیں جاودانی اور جہاں کی مسرتیں غیر فانی ہیں۔ جہاں حیات ہے ” مگر حیات ہے “ مگر موت نہیں۔ راحت ہے مگر تکلیف نہیں۔ لذت ہے مگر الم نہیں ‘ مسرت ہے۔ مگر غم نہیں۔ جہاں وہ سکون ہے جس کے ساتھ اضطراب نہیں اور وہ شادمانی ہے جس کے بعد حزن واندوہ نہیں۔ شیطان ہے تو شیطان لیکن کبھی کبھی بات بڑی کام کی کرجاتا ہے اور ایسا سچ بولتا ہے کہ اس کو جھوٹا کہنے کے باوجود اس کی اس بات کو جھٹلا نہیں جاسکتا۔ آپ کو معلوم ہوگا اس نے آدم (علیہ السلام) کے سامنے جنت کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ سوفیصد صد صحیح تھا اس نے کہا تھا۔ ” ھل ادلک علی شجر ۃ الخلد و ملک لا یبلی “ (طہ 20 : 120) ” آدم (علیہ السلام) بتائوں میں آپ کو وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے ؟ “ مگر جنت کا یہ وصف سنا کر ان کو جدھر کا رستہ بتایا وہ موت کے درخت اور فنا کے ملک کی طرف کا تھا اور یہی وہ فریب تھا جس میں آدم (علیہ السلام) گرفتار ہوئے چناچہ اس جنتی زندگی کی تلاش میں وہ چیز کھالی جو ان کے حق میں زہر تھی یعنی گناہ کا پھل۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنۃ الخلد اور غیر فانی ملک سے نکل کر ان کو اس فنا کے ملک میں آنا پڑا جہاں کیلئے وہ دراصل پیدا کئے گئے تھے اور پھر اس جنۃ الخلد اور غیر فانی ملک کا استحقاق ان کے اور ان کی نسل کے اعمال صالحہ کا صلہ قرار پایا جب کہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ام جنۃ الخلد التی وعد المتقون کانت لھم جزاء و مصیرا “۔ (الفرقان 25 : 15) ” یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس لوگوں سے کیا گیا ہے جو ان کے عمل کی جزاء اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی۔ “ ہمیشگی کا باغ وہ غیر فانی مملکت ہے جہاں کا آرام دائمی اور جہاں کی سلامتی ابدی ‘ جہاں کی لذت بےانتہا ‘ جہاں کی زندگی غیر منقطع ‘ جہاں کا سرور غیر مختتم اور جہاں کا عیش جاوداں ہے۔ ” تحیتم فیھا سلام “ انسان امن و سلامتی کا بھوکا ہے لیکن وہ اس امن و سلامتی کو اسباب راحت کے انبار میں تلاش کرتا ہے اور نہیں پاتا۔ وہ دنیا میں امن کا گوشتہ ڈھونڈتا ہے اور وہ اس کو نہیں ملتا لیکن یہاں آ کر اس کو نہ صرف امن کا گوشہ بلکہ امن و سلامتی کی ایک دنیا ملے گی۔ وہ پرند جو عمر بھر چار عناصر کے قفس میں گرفتار رہا یہاں وہ سدرۃ المنتہا کی ہر شاخ پر آزادانہ پرواز کرے گا ‘ جنت کے جہاں وحی محمدی نے اور بہت سے نام بتائے ہیں وہاں اس کا ایک نام ” دارالسلام “ بھی بتایا ہے جس کے معنی امن و سلامتی کے گھر کے ہیں۔ چناچہ اہل جنت کی نسبت ارشاد ہے ۔ ” لھم دارالسلام عند ربھم “ ان کیلئے ان کے پروردگار کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس شریعت کو دے کر اپنے پیغمبر ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے وہ حقیقت میں اس امن و سلامتی کی نوید و بشارت ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ” واللہ یدعوا الی دارالسلام “ (یونس 10 : 45) اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے نبی اعظم و اخر ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف الئے تو سب سے پہلے اس امن و سلامتی کے گھر کی دعوت پیش فرمائی۔ عبداللہ بن سلام ایک یہودی عالم تھے نبی اعظم و آخر ﷺ کی جس صدائے نبوت نے سب سے پہلے ان کے دل میں گھر کیا وہ یہی تھی کہ ” لوگو ! سلامتی پھیلائو ‘ بھوکوں کو کھلائو ‘ جب دنیا غفلت کی نیند سوئے تو تم اٹھ کر اللہ کی عبادت کرو ‘ امن و سلامتی کے گھر میں رہنا تم کو نصیب ہوگا “۔ مختصر یہ کہ جنت کے ذکر میں اس امن و سلامتی کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے در و دیوار سے امن و سلامتی کے ترانے سنائی دیں گے اور اس کا بیان بہت وسیع ہے اس کیلئے ہمارا ایک رسالہ ” جنت کیا ہے ؟ “ کا مطالعہ کریں انشاء اللہ تفصیل وہاں مل جائے گی۔
Top