Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 29
جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلَوْنَهَا١ؕ وَ بِئْسَ الْقَرَارُ
جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلَوْنَهَا : اس میں داخل ہوں گے وَبِئْسَ : اور برا الْقَرَارُ : ٹھکانا
دوزخ میں جا اتارا جس میں وہ داخل ہوں گے کیا ہی برا ٹھکانا ہے ؟
جہنم میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے 30 ؎ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ” اللہ کو تمہارے عذاب سے کیا کام ‘ اگر تم شکر کرو اور ایمان لائو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکرگزاری کو قبو ل کرنے والا اور تمہارے دلوں کے حال کو جاننے والا ہے۔ “ (النساء 4 : 137) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو گنہگاروں کے عذاب سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی نہ ہی وہ چاہتا ہے کہ اس کے گنہگار بندے اس عذاب میں مبتلا ہوں لیکن ازل سے اس نے اپنے لئے جو قانون مقرر کردیئے ہیں وہ ان کو کبھی نہیں توڑتا۔ غور کرو کہ جس وقت آدم کو جنت کی سرزمین سے نکال کر اس دنیا میں اس لئے بھیجا گیا کہ وہ اپنے عمل کے استحقاق سے اس جنت کو دوبارہ ہمیشہ کیلئے حاصل کریں اس وقت یہ قانون بھی ان کو سنا دیا گیا تھا۔ زیر نظر آیت میں مستحق دوزخ ہونے کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں ایک کفران نعمت اور دوسری تکذیب اور سورة النساء والی آیت میں عذاب دوزخ سے نجات پانے کی دو شرطیں شکر اور ایمان ان کے بالمقابل بیان کی گئیں جس سے ظاہر ہوا کہ شکر اور ایمان استحقاق جنت کی شرطیں اور کفران اور تکذیب استحقاق دوزخ کے اسباب ہیں بقیہ تمام نیکیاں شکر اور ایمان کے فروغ اور تمام برائیاں کفر اور تکذیب کی شاخیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لئے نہیں بتایا کہ وہ ان کو پیدا کر کے دوزخ کا ایندھن بنائے بلکہ اس نے تو ان کو اپنی رحمت کے ظہور کیلئے پیدا کیا۔ غیظ و غضب کے اظہار کیلئے نہیں فرمایا۔ بلاشبہ ایسے بدبخت بھی ہوں گے جو ابدی جہنم میں رہیں گے لیکن اس کی پیہم رحمتوں کا یہ تقاضا بھی ہے کہ وہ گنہاروں کو زیادہ سے زیادہ یہ کہ ان کے نتائج عمل کے بھگت لینے کے بعد آخرکار اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے اور وہ ان کو اپنی بخششوں سے سرفراز فرمائے۔ اس لئے ان لوگوں کی کمی بھی نہیں ہوگی جن کیلئے دوزخ ایک قید خانہ نہیں بلکہ شفاخانہ ہے۔ انسان جب عدم حفظ صحت کی غلط کاریوں کے سبب سے بیمار ہوجاتا ہے تو اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ فطرت نے اس کو ان کے معاوضہ میں بیماری کی تکالیف کی سزائیں دی ہیں مگر واقعہ یہ نہیں ہے واقعہ یہ ہے کہ ان غلط کاریوں کے جو برے نتائج انسان کے جسم کے اندرپیدا ہوگئے ہیں ان کو دور کرنے کیلئے جسم جدوجہد کرتا ہے ‘ اس لڑائی کا نام بیماری اور اس لڑائی کی کشمکش کا نام بیماری کی تکالیف و آلام ہے جن کو ہم درد سر اور درد شکم ‘ اعضاء شکنی اور بےخوابی وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ‘ یہی روحانی بیماریوں کا حال ہے جن کو ہم اصلاع شرعی میں ” گناہ “ اور جن کے نتائج بد کو ” عذاب “ کہتے ہیں ‘ یہ نتائج آتش دوزخ اور اس کے شدائد و آلام کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور جن کا منشاء یہ ہوگا کہ روح انسانی اپنی غلط کاریوں کے نتائج بد کو دور کرنے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہوگی اور جونہی وہ ان سے عہدہ برآ ہوگی خدا کی رحمت سے سرفرازی پا کے اس عذاب سے نکل کر اپنی موروثی بہشت میں داخل ہوگی۔ اس تمہید سے ظاہر ہے کہ دوزخ کی مثال یہ نہیں ہے کہ وہ مجرموں کیلئے قید خانہ ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بیماروں کیلئے شفاخانہ ہے ‘ بیمار کو شفاخانہ کے اندر بھی ہر قسم کی تکلیفیں محسوس ہوتی ہیں ‘ درد ‘ اعضا شکنی ‘ شدت تشنگی ‘ سوزش جسم وہاں اس کو کڑوی سے کڑوی غذا پلائی جاتی ہے ‘ بدمزہ سے بدمزہ کھانا کھلایا جاتا ہی ‘ ضرورت ہوتی ہے تو اس کو نشتر دیا جاتا ہے مگر یہ ساری ایذا رسانی کسی انتقام اور تکلیف دہی کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ عدم صحت کی غلط کاریوں کے برے نتائج سے اس کے جسم کو محفوظ رکھنے کی غرض سے کی جاتی ہے اس کو جو تکلیفیں وہاں محسوس ہوتی ہیں وہ گوشفاخانہ کے اندر ہی محسوس ہوتی ہیں مگر ان سب کے سبب شفاخانہ نہیں بلکہ خود اس بیمار کا اصول صحت سے دانستہ یا نادانستہ انحراف کرنا اور اس کی وجہ سے ان بیماریوں میں مبتلا ہونا ہے۔ یہ اصول ان آیتوں اور صحیح احادیث سے پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے جن میں بالآخر عذاب دوزخ سے نجات پانے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ دنیاوی آلام و تکالیف کی نسبت قرآن کریم نے یہ اصول پیش کیا ہے ۔ والیمحص اللہ الذین امنوا و یمحق الکافرین۔ (آل عمران 3 : 141) ” اور جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں انہی پاک کر دے اور جو منکرین حق ہیں انہیں نیست و نابود کر دے۔ “ یہی اصول عذاب اخروی پر صادق آتا ہے کہ اس سے بھی مقصود گناہ گار اہل ایمان کی پاکیزگی و صفائی ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ۔ حقوق العباد کے بعد حتی اذا ھذبوا و نقوا اذن لھم فی دخول الجنتہ (صحیح بخاری کتاب القصاص یوم القیامہ ص 967 ج 2) اس حدیث میں یہ دو لفظ ھذبوا و نقوا تشریح طلب ہیں ھذبوا کا مصدر تہذیب ہے اور تہذیب کے لغوی معنی یہ ہیں کہ درختوں کی خراب شاکیں اس لئے چھانٹ دی جائیں تاکہ ان میں سرسبزی و شادابی پیدا ہو اور ترقی کی نئی زندگی ان کو مل جائے اور نقوا کا مصدر تنقیہ ہے اور تنقیہ کے اصل معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کے اندر سے خراب و فاسد مادہ کو الگ کردیا جائے تاکہ وہ پوری طرح نکھر جائے اس تشریح سے صاف کھل گیا کہ گنہگاروں کو جنت کے داخلہ کیلئے کیا درکار ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہے کہ اہل جنت جب جنت کے قریب پہنچیں گے تو ندا آئے گی۔ طبسم فادخلوھا خلدین۔ (زمر 39 : 73) تم پاک و صاف ہوچکے ہو تو جنت میں سدا کے لئے آجائو۔ مختصر یہ کہ جب اس طیب و پاکیزگی کا دور آئے گا تو گنہگاروں کو بھی نجات ملے گی اس لئے ہر گنہگار کیلئے دوزخ سے نکلنے کی مدت خواہ کتنی ہی طویل ہو مگر بہرحال اس کی انتہا ہے چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ لا یشین فیھا احقانا (نباء 78 : 23) ” دوزخ میں وہ دہاسال پڑے رہیں گے۔ “ لیکن بالآخر ان صدہال سال کے بعد ایک دن آئے گا کہ اللہ نے چاہا تو ان کو نجات ملے گی۔ حدیث رویائے برزخ میں ہے کہ ” آپ (علیہ السلام) نے دوزخ میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جنہوں نے کچھ اچھے اور کچھ برے کام کئے تھے ان کا آدھا دھڑ تو نہایت خوبصورت اور آدھا سخت بدصورت تھا لیکن جب ان کی سزا کی مدت ختم ہوئی تو فرشتوں نے ان سے کہا کہ جائو اور اس نہر میں جا کر پڑ جائو ‘ سامنے وہ نہر تھی جس میں خالص سپید پانی بہہ رہا تھا وہ اس میں جا کر پڑگئے ‘ پھر نکل کر آئے تو ان کی دو بدصورتی جاتی رہی اور وہ نہایت خوبصورت ہوگئے۔ “ (صحیح بخاری کتاب التعیر) اس سے ظاہر ہے کہ اللہ کی رحمت کیونکر گنہگاروں کو سرفراز فرمائے گی۔ جس سے معلوم ہوا کہ دوزخ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس طرح دنیا میں شفاخانوں کا وجود بیماریوں کیلئے نعمت ہے۔ اگر دوزخ نہ ہوتی تو گنہگاروں کی پاکیزگی اور جنت میں ان کی داخل ہونے کی کوئی صورت نہ ہوتی تو اس رحمن و رحیم کی رحمت و کرم نے گوارا نہ کیا کہ ان بدبختوں کی ان نافرمانیوں کے باوجود ہمیشہ کیلئے محروم رکھا جائے اس لئے ان کی صفائی کیلئے پہلے برزخ کا حمام مقرر کیا اور جو اس سے بھی پاک نہ ہو سکیں ان کیلئے دوزخ کی آگ مقرر کی کہ وہ اپنی ہر قسم کی بد اعمالیوں کے می کچیل جلا کر نکھر کر پاک و صاف ہوجائیں اور کندن بن کر بالآخر اپنی آبائی اور فطری وراثت (جنت) پائیں اس نظریہ کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کا مطالعہ کیجئے اور خصوصاً ان آیات کریمات کو پڑھئے جن میں قیامت کی ہولناکیوں اور مصیبتوں کو بھی نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر مزید ضرورت محسوس کریں تو ہمارا کتابچہ ” دوزخ کیا ہے ؟ “ کا مطالعہ کریں۔ انشاء اللہ تسلی ہوگی۔
Top