Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 33
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۚ
وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند دَآئِبَيْنِ : ایک دستور پر چلنے والے وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن
اسی طرح سورج اور چاند بھی مسخر کردیئے ہیں کہ ایک خاص دستور پر برابر چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کا ظہور بھی مسخر ہے
سورج اور چاند کو مسخر کرنے والا بھی اللہ ہی ہے جو تمہارے کام بنانے والا ہے 34 ؎ غور کرو کہ ” رزقا لکم “ سخر لکم میں بار بار لکم (تمہارے لئے) کا تکرا رکتنا معنی خیز ہے گویا بتایا جا رہا ہے کہ تم ہی مقصود کائنات ہو ‘ باقی سب کچھ جو تم کو نظرآ رہا ہے یعنی زمین ‘ آسمان ‘ سورج ‘ ستارے ‘ سیارے ‘ درخت ‘ پہاڑ ‘ سمندر اور دریا بلکہ اس کائنات کا ایک ایک ذرہ تمہارے کام میں مصروف ہے اور اللہ نے ان سب کے اندر ایسی کشش رکھی ہے کہ ہرچیز اپنی اپنی جگہ اپنا کام بڑی مستعدی سے ادا کر رہی ہے۔ زمین و آسمان کے اس خلاء کے اندر کتنے کتنے بڑے اجرام فلکی آپ کو نظر آئے ان کی کشش ایک دوسرے کو بحال رکھنے کا باعث ہے۔ یہ آسمان اور زمین ‘ چاند اور سورج ‘ دریا اور سمندر اور گردش لیل و نہار سب کے سب تمہارے خدمت گزار ہیں۔ اے انسان ! تو بھی اپنے دل سے پوچھ کہ تجھے کیوں پیدا کیوں کیا گیا ؟ اس لئے کہ تو سورج کو پوجتا رہے یا سورج دیوتا کو پوجتا رہے جو تیری چاکری میں مصروف ہے تو دریائوں کے سامنے جھکتا پھرے جو تیری خدمت کیلئے رواں دواں ہیں ‘ تو اپنے جیسے انسانوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا رہے جو تیری ہی طرح خود محتاج ہیں یا تو ان ہی انسانوں کی قبروں پر سجدے کرتا پھرے تو تو ہی بتا کہ تیرے اور ایک بت پوجنے والے انسان میں فرق کیا رہا ؟ تیری شان تو اے انسان ! بڑی بلند اور تیرا مقام بڑا رفیع ہے سب کچھ تیرے لئے ہے اور تو اپنے خالق ومالک اللہ کیلئے کیا اچھا ہوتا کہ تو سجدہ ریز ہوتا کہ صرف اس خالق ومالک کے سامنے تو تجھے زیب دیتا اب تیری احسان شناسی اور شکر گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ تو اس کا ہو رہے جس نے اس ساری کائنات کو بشمول تیرے بنایا اور پھر ہرچیز کی نگہبانی کر رہا ہے۔ اے انسان ! تو کیا تھا ؟ خلیفتہ اللہ اس لئے اللہ نے اس کائنات کی ہرچیز کو تیری خدمت کیلئے پیدا کیا پھر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ تو الٹا انہیں کو سمجھ بیٹھے ! یہ سورج اور چاند جو بہت بڑے نظر آتے ہیں یہ بھی فی نفسہ تیری ہی خاطر گرداں ہیں یعنی اپنی عادت جاریہ پر ثبات و دوام رکھنے والے اپنی روشنی اور اپنی گرمی ‘ اپنی شرح رفتار اور اپنی دوسری طبعی خصوصیات سے ہمیشہ تجھے فائدہ پہنچاتے رہنے پر مجبور ہیں۔ پھر تف ہے تجھ پر کہ تو اپنے خادموں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے اور ان کو اپنا رب مان لے۔ تو نے تو ایسا کر کے نہ صرف اپنے رب کی عزت و تکریم نہ کی بلکہ اپنی توہین کا بھی خود ہی باعث ہوا۔
Top