Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 34
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠   ۧ
وَاٰتٰىكُمْ : اور اس نے تمہیں دی مِّنْ : سے كُلِّ : ہر چیز مَا : جو سَاَلْتُمُوْهُ : تم نے اس سے مانگی وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : گننے لگو تم نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ لَا تُحْصُوْهَا : اسے شمار میں نہ لا سکو گے اِنَّ : بیشک الْاِنْسَانَ : انسان لَظَلُوْمٌ : بیشک بڑا ظالم كَفَّارٌ : ناشکرا
غرض کہ تمہیں جو کچھ مطلوب تھا سب اس نے عطا فرما دیا ، اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو ، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناانصاف اور بڑا ہی ناشکرا ہے
اللہ نے ضرورت کی ہرچیز تم کو دی اور تم اللہ کی نعمتوں کو گن نہیں سکتے 35 ؎ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہاری طلب کی ہرچیز تم کو دی اور وہ عظیم انعامات ہیں جو تمہارے عالم وجود میں قدم رکھنے سے پہلے بن مانگے تمہارے لئے مہیا کردیئے گئے لیکن ان کے علاوہ ہم تمہاری ان ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں جن کے متعلق تم ہم سے التجائیں کرتے ہو اور دعائیں مانگتے ہو اور اس کے انعامات و احسانات اتنے کثیر ہیں کہ تم اگر ان کا شمار کرنا چاہو تو نہ کرسکو تمہارے ہند سے ختم ہوجائیں اور تمہاری زبانیں گنتے گنتے تھک جائیں لیکن تم ان کی گنتی نہ کرسکو۔ انسان اگر اپنے گرد و پیش سے آنکھیں بند کر کے صرف اپنے وجود ہی میں غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے کہ اس پر اس کے پروردگار کی نوازشات بیحد و حساب ہیں ذرا سوچو اگر مرد کے منہ پر بال ہی نہ اگیں اور عورت کے چہرے پر بال اگ آئیں تو پھر ؟ اگر ہاتھوں میں انگلیاں ہی نہ ہوں یا انگلیوں کے سروں سے ناخن ہی جھڑ جائین تو آپ کے بازو کی ساری قوت بےکار ہو کر رہ جائے۔ اگر منہ میں لعاب دہن (تھوک) ہی نہ پیدا نہ ہو تو کیا آپ کی زبان لکڑی کی طرح خشک ہو کر نہ رہ جائے گی۔ اگر آنکھوں پر چھپر نہ ہوں یا چھپر بھی ہوں لیکن چھپروں کے ساتھ پکیں نہ ہوں تو آپ آنکھوں کی حفاظت کیسے کرسکیں گے ؟ بہ ظاہر یہ کتنی معمولی چیزیں ہیں جن کی افادیت کے متعلق شاذ و نادر ہی ہم غور کیا کرتے ہیں جب ان کی اہمیت کا یہ حال ہے تو بڑی بڑی نعمتوں کی اہمیت کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ” بلاشبہ انسان بڑا ہی ناشکرا اور بڑا ہی ناانصاف ہے۔ “ انسان کے یہ دو وصف بیان کئے ہیں اور سورة النحل میں اپنے دو وصف ذکر کئے ہیں کہ ” ان اللہ لغفور رحیم “ گویا وہ آیت اس آیت کے ٹھیک مقابلہ میں اور انسان کی ناانصافی کے مقابلہ میں ہے اللہ کی مغفرت ور انسان کے کفران نعمت کے مقابلہ میں اللہ کی رحمت ہے والمقصود کانہ یقول ان کنت ظلوما فانا غفور و ان کنت کفارا فانا رحیم (کبیر) چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری پیشانیاں اپنے حی وقیوم پروردگار کے حضور میں ہر وقت جھکی رہتیں۔ دل اس کی عظمت وکبریائی کے احساس سے لبریز رہتے اور زبانیں اس کی حمد وثناء کے گیت گاتی رہتیں لیکن یہ تو وہ خاک جس کی عزت افزائی کیلئے اتنے سامان کئے گئے یہ نراہی ظلوم و کفار ہے یہ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں یعنی بڑا ظالم سخت ناشکرا تم خود ہی انصاف سے بتائو کہ ایسے محسن اور کریم رب کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا یا اس کی نافرمانی کرنا ظلم عظیم نہیں اور اس کی گراں بہا نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اس کی ناشکری کرنا کیا کفران نعمت کی حد نہیں ؟ الانان۔ انسان سے یہاں ہر فرد انسانی مراد نہیں بلکہ جنس انسانی ہے عام اس سے کہ اس ظلم اور کفران کا تحقق چند ایک میں پایا جائے یا زائد میں۔
Top