Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 37
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ١ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنِّىْٓ : بیشک میں اَسْكَنْتُ : میں نے بسایا مِنْ : سے۔ کچھ ذُرِّيَّتِيْ : اپنی اولاد بِوَادٍ : میدان غَيْرِ : بغیر ذِيْ زَرْعٍ : کھیتی والی عِنْدَ : نزدیک بَيْتِكَ : تیرا گھر الْمُحَرَّمِ : احترام والا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِيُقِيْمُوا : تاکہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز فَاجْعَلْ : پس کردے اَفْئِدَةً : دل (جمع) مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ تَهْوِيْٓ : وہ مائل ہوں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَارْزُقْهُمْ : اور انہیں رزق دے مِّنَ : سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَشْكُرُوْنَ : شکر کریں
اے ہم سب کے پروردگار ! ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسائی ہے اور اس لیے بسائی ہے کہ نماز قائم کریں پس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار اور سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں
دعا میں اپنی اولاد کو شامل کر رہے ہیں جن کو یہاں آباد کرنے کیلئے ساتھ لائے تھے 38 ؎ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا جاری ہے اور آپ (علیہ السلام) کی دعا کے سلسلہ میں یہ تیسری آیت آرہی ہے ۔ پہلی دو آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) اپنی ذات کو مخاطب کر کے دعا فرما رہے تھے لیکن زیر نظر آیت کے اس پہلے حصے میں مخاطب تو اپنی ذات ہی کیلئے ہیں لنکل اصل دغا اپنی اس اولاد کے لئے مخصوص کر رہے ہیں جس اولاد کو مکہ بسانے کیلئے ساتھ لائے تھے اور یہاں ان کی رہائش کا مکمل انتظام کرنا چاہتے ہیں اور یہ سارا کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے فرزند ارجمند ہیں جو بی بی ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ تورات کے بیان کے مطابق بی بی ہاجرہ اور سارہ میں قدرے چشمک چلتی رہتی تھی اور سارہ کے ہاں کوئی اولاد بھی نہیں تھی جب بی بی ہاجرہ کے بطن سے سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اس چشمک میں مزید اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کے متعلق خوابات میں بتایا کہ اس بچے کو بیت اللہ کے قریب لے جا کر بسایا جائے اور خواب میں اس واقعہ کو اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح ہونے کی صورت میں دکھایا گیا اور اس کی تعبیر میں یہ بات سمجھائی گئی کہ اس کو بیت اللہ کے قریب آباد کرنا ہی دراصل ذبح کرنا اور اس کیلئے ذبیح ہونا ہے۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتا رہا تاآنکہ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) سن بلوغ کو پہنچ گئے اور ادھر اللہ نے سارہ کو بھی اسحٰق (علیہ السلام) جیسا فرزند عطا کردیا۔ اسحٰق (علیہ السلام) کی پیدائش سے لازم آگیا کہ اب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بڑے بیٹے کو اللہ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کے قریب آباد کردیں تاکہ سارا اور ہاجرہ دو مائوں کے الگ ہونے سے وہ چپقلش جو خاندان میں پیدا ہونا ایک فطری بات ہے وہ پیدا نہ ہو۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس خواب کی تعبیر میں جس کے متعلق بیٹے سے پوچھا تھا کہ میں نے یہ یہ خواب دیکھا ہے اب تم بتائو کہ اس کا کیا ہونا چاہئے اور بیٹے نے وہ تاریخی جواب دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا کہ ” یابت افعل ما تومر “ ابو جان ! آپ وہ کام بےخطر کریں جس کا آپ کو آپ کے رب نے حکم دیا ہے۔ ستحدنی ان شاء اللہ من الصبرین۔ انشاء اللہ العزیز آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ والد بزرگوار نے اللہ کے حکم کے مطابق اس پر عمل کیا اور بیٹے نے والد کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھ کر اپنے وطن سے دور رہائش اختیار کرلی۔ اس موقع پر ابراہیم (علیہ السلام) نے جو دعا مانگی تھی کہ ” اے ہمارے رب ! ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی باڑی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسا دی ہے۔ “ اور میں نے یہ جو کچھ کیا ہے تیرے ہی حکم خاص سے کیا ہے۔ ہمارے اس عمل کو منظور و مقبول فرما لے۔ میرے اللہ ! میری دعا ہے کہ میرا یہ بیٹا اور اس کی اولاد در اولاد تیری ہی عبادت میں لگے رہیں 39 ؎ فرمایا میرا یہاں لا کر بسانا تیرے ہی حکم سے ہے ان کو توفیق عطا فرما کہ یہ لوگ نمازیں قائم کریں اور تیری عبادت میں مصروف رہیں اور اے میرے اللہ ! ان میں انس اور محبت پیدا ہو اور خصوصاً لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے اس لئے کہ یہ اس علاقہ میں بالکل اجنبی ہیں کوئی ان سے اور ان کے باپ دادا سے کسی کو بھی جانتا پہچانتا نہیں۔ اے میرے اللہ ! ان کو پھلوں سے وافر رزق عطا فرما تاکہ یہ لوگ تیرے شکر گزار ہوں۔ صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث میں جو شیر خوار بچے کو یہاں لا کر آباد کرنے کا ذکر پایا جاتا ہے وہ دراصل ابراہیم (علیہ السلام) کا خواب تھا جو ایک بار نہیں آپ نے بار بار دیکھا لیکن اس کی تعبیر اپنے وقت پر آ کر اس وقت پوری ہوئی جو اللہ کے نزدیک اس کے پورا ہونے کا وقت مقرر کیا جا چکا تھا اور یہ بات کوئی نئی بات نہیں ہے آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کا وہ خواب ہی تھا جس کی بناء پر باوجود اس کے یعقوب (علیہ السلام) کو حقیقی بیٹوں نے کہا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیا کھا گیا لنک یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی بات کا یقین نہیں کیا اور اللہ نے یوسف (علیہ السلام) کو زندہ رکھا تاآنکہ آپ (علیہ السلام) کا خواب بالکل من و عن تقریباً 35 ‘ 40 سال بعد جا کر پورا ہوا اور جو کچھ ہوا وہ ان کے خواب کی تعبیر ہی تھی۔ یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مورخین اور مفسرین نے ایسی باتوں کی طرف ہمیسہ کم ہی توجہ دی ہے۔ اس دعا میں آپ نے فرمایا کہ اے میرے رب میں نے جو تیرے گھر کے نزدیک اپنی بعض اولاد بسائی ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ” تیرا حکم پورا ہو اور یہ لو نمازیں قائم کریں پس تو ایسا فرما کہ ان کی طرف لوگوں کے دلوں کو پھیر دے اور ان کیلئے زمین کی پیداوار اور سامان رزق مہیا کردے تاکہ وہ لوگ تیرے شکر گزار ہوں۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بحمد للہ اسماعیل (علیہ السلام) کے حق میں پوری ہوئی اور اس وادی غیر ذی ذرع کو جو رنگ لگا اس کا نظارہ آج تک دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایمانداری سے کہئے کہ اس سے بڑا کوئی اور کیا معجزہ ہوگا کہ آج تک صدیاں گزر جانے کے باوجود اس دعا کو اللہ تعالیٰ نئی سے نئی زندگی بخش رہا ہے اور پوری دنیا میں وہی غیر ذرع خطہ وہ ہے جہاں نہ پھلوں کی کوئی کمی ہے ‘ نہ غلہ کی اور اشیاء خوردنی کی اتنی کثرت ہے اور اتنی فراوانی ہے کہ اتنی کثرت اور اتنی فراوانی ان جگہوں اور ملکوں میں بھی نہیں جہاں کی وہ پیداوار ہیں۔ تعجب ہے کہ ہمارے مفسرین جب کیڑے نکالنے لگتے ہیں تو بڑی بڑی دور تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر خاموش ہوں تو پائوں میں پڑی ہوئی چیز کو آنکھوں دیکھنے کے باوجود بیان نہیں کرتے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لئے دعا نہ فرمائی کہ اے اللہ اس سرزمین کو قابل کاشت بنا دے اگر وہ یہ دعا مانگ لیتے تو یقینا مکہ کی وادی ذی ذرع ہوجاتی اور پہاڑ ادھر ادھر ہٹا دیئے جاتے اور آج وہاں کھیت ہی کھیت نظر آنے لگتے۔ گویا کہ مفسرین نے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں جو کسر رہ گئی تھی اگر اس کو پورا نہیں کیا تو کم از کم نشاندہی تو کردی کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے دعا میں یہ کمی رہ گئی اگر اس وقت وہ یہ دعا مانگ لیتے تو آج عرب کا نقشہ کچھ اور ہوتا اور ہماری حالت یہ ہے کہ جب کوئی شخص بچوں کی سی کوئی بات کرتا ہے تو لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں اور پھر سبحان اللہ کا نعرہ بلند ہوتا اور کتنے ہی لوگ ہیں کہ سردھن کر رہ جاتے ہیں لیکن اس بات پر جب غور کیا جاتا ہے تو اس میں سوائے بیوقوفی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
Top