Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 47
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍؕ
فَلَا تَحْسَبَنَّ : پس تو ہرگز خیال نہ کر اللّٰهَ : اللہ مُخْلِفَ : خلاف کرے گا وَعْدِهٖ : اپنا وعدہ رُسُلَهٗ : اپنے رسول اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
پس ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے رسولوں سے جو وعدہ کرچکا ہے اس کے خلاف کرے گا ، وہ غالب ہے اور سزا دینے والا ہے
اللہ نے کبھی اپنے رسولوں سے کیا ہوا وعدہ خلاف نہیں کیا وہ نہایت ہی طاقتور ہے 51 ؎ فرمایا کوئی یہ نہ سمھے اور نہ ہی ایسا گمان کرے کہ اللہ نے کوئی وعدہ اپنے کسی رسول سے کر کے ان کے خلاف کیا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی ایسا واقعہ جس میں اللہ نے اپنے وعدہ کا خلاف کیا ہو۔ تلاش کرتے جائو اور جہاں تک چاہتے ہو مطالعہ کرو تم کہیں ثابت نہیں کرسکو گے یعنی کوئی ایک واقعہ بھی تم کو ایسا نہیں مل سکے گا۔ ہاں ! اگر لوگوں نے کوئی ایسی صورت بیان کردی ہو تو وہ دوسری بات ہے لیکن اس کی تحقیق کر کے دیکھو تو تم کو کبھی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ ناکام ہی رہو گے اور یہ بات اس لئے بیان کی جا رہی ہے کہ اب بھی وہ وعدے جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے ساتھ کئے گئے ہیں وہ اپنے اپنے وقت پر پورے ہو کر رہیں گے۔ لوگوں کو یہ غلطی لگی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ کا محاورہ درست ہے تو پھر طاقتور کا اپنے معاہدہ کے مطابق کرنا اور اس کے خلاف نہ کرنا چہ معنی وارد۔ گویا ان کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ انہوں نے اللہ کو بھی اس کھاتے میں رکھا جس میں اس دنیا کے سارے ظالموں کو رکھا۔ ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ کا محاورہ دنیا کے ان سارے ظالموں پر بولا جاتا ہے جو کمزوروں پر ظلم کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں کیا اللہ کا شمار بھی انہی ظالموں میں سے ہے۔ حالانکہ ہقیقت یہ ہے کہ وعدہ کر کے پورا نہ کرنا دراصل کمزوری کی نشانی ہے۔ اگرچہ اس کمزوری کا تم کو احساس نہ رہا ہو تمہاری نگاہ اس کے طلم پر تو ہے لیکن تم کو یہ معلوم نہیں کہ یہ بھی اس ظالم کی کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے اگرچہ آپ کی سمجھ میں یہ بات نہ آئے۔ زیر نظر آیت میں جملہ ” ان اللہ عزیز “ پر گہری نظر ڈالو تو شاید بات تمہاری سمجھ میں آجائے اور پھر آنے والی آیت اس کی مزید وضاحت بھی پیش کر رہی ہے ذرا توجہ سے مطالعہ کرو گے تو انشاء اللہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
Top