Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 48
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
يَوْمَ : جس دن تُبَدَّلُ : بدل دی جائے گی الْاَرْضُ : زمین غَيْرَ الْاَرْضِ : اور زمین وَالسَّمٰوٰتُ : اور آسمان (جمع) وَبَرَزُوْا : وہ نکل کھڑے ہوں گے لِلّٰهِ : اللہ کے آگے الْوَاحِدِ : یکتا الْقَهَّارِ : سخت قہر والا
وہ دن کہ جب زمین بدل کر ایک دوسری زمین ہوجائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے اور سب لوگ خدائے یگانہ و غالب کے حضور حاضر ہوں گے
اس دن کا خیال رکھو جب یہ زمین و آسمان اس زمین و آسمان سے بدل جائیں گے 52 ؎ یہ بیان قامت کے روز کا ہے کہ اس روز زمین و آسمان بدلے ہوئے ہوں گے اور جن آسمان و زمین سے ہم واقف ہیں ان کی بجائے کوئی دوسرے ہی موجود ہوں گے لیکن ان موجود ہونے والے زمین و آسمان کے متعلق ہم کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کیا ہوں گے اور کیسے ہوں گے ؟ ہاں ! وہ یقینا ایسے آسمان و زمین نہ ہوں گے جیسے ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ رات کو ستارے جگمگا رہے ہیں چاند اپنی رو پہلی اور خنک کرنوں سے دلوں کو تازگی اور روح کو نشاط بخش رہا ہے ۔ لیکن ان کی ہقیقت کو اللہ ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ آیا ان کی ظاہری شکل و صورت ہی بدلی ہوئی ہوگی یا پوری زمین ایک سطح مستوی بنا دی جائے گی جس میں نہ کسی مکان کی آڑ ہوگی اور نہ ہی درخت وغیرہ کی ‘ نہ کوئی پہاڑ اور ٹیلہ رہے گا نہ غار اور گہرائی۔ قرآن کریم میں اس حال کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ ” لا تری فیھا عوجا ولا امنا “ یعنی تعمیرات اور پہاڑوں کی وجہ سے جو آج کل راستے اور سڑکیں مڑ کر گزرتی ہیں وار کہیں اونچائی ہے کہیں گہرائی تو یہ صورت وہاں نہ ہوگی بلکہ سب کا سب میدان صاف ہوجائے گا اور اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ بالکل ہی اس زمین کے بدلے میں دوسری زمین اور اس آسمان کے بدلے دوسرے آسمان بنا دیئے جائیں۔ روایات حدیث جو اس کے متعلق منقول ہیں ان میں بھی بعض سے صرف صفات کی تبدیلی معلوم ہوتی ہے اور بعض سے ذات کی تبدیلی۔ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر کی زمین بالکل نئی زمین چاندی کی طرح سفید ہوگی اور یہ زمین ایسی ہوگی جس پر کسی انسان نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی اس پر کسی کا ناحق خون گرایا گیا ہوگا وار اس طرح کے مضمون کی احادیث انس ؓ سے بھی منقول ہیں۔ سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہء قیامت کہ قیامت کے روز لوگ ایک ایسی زمین پر اٹھائے جائیں گے جو ایسی صاف وسفید ہوگی جیسے میدے کی روٹی صاف اور ہموار ہوتی ہے۔ پھر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس زمین و آسمان کے بدل دینے ‘ اٹھا لئے جانے ‘ لپیٹ لئے جانی ‘ ان کی شکل و صورت کے بدل جانے کے استعارات آتے ہیں لیکن ان کی حقیقت ہر انسان کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں بلکہ انسانی ذہنوں سے یہ بات بہت بلند ہے کیونکہ وہ مشاہدہ میں آنے والی نہیں اس لئے اس کی بحث جائز نہیں۔
Top