Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا تھا کہ اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں بخشوں گا اور اگر ناشکری کی تو پھر یاد رکھو میرا عذاب بھی بڑا ہی سخت ہے
اس اعلان الٰہی کا ذکر جس میں شکر کرنے والوں کو زیادہ دینے کا ارشاد فرمایا گیا 7 ؎ ” ناذن “ اور ” اذن “ ایک ہی معنی رکھتے ہیں یعنی اعلم جس کا مطلب خبردار کرنے یا آگاہ کرنا ہے اور اس کو اعلان کرنا بھی کہتے ہیں۔ شکر کیا ہے ؟ لغت میں شکر کے اصل معنی یہ تحریر ہیں کہ ” جانور میں تھوڑے سے چارہ ملنے پر بھی ترو تازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے “۔ اس سے انسانوں کے محاورہ میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا کام بھی کر دے تو دوسا اس کی پوری قدر کرے پھر یہ قدر شناسی تین طریقہ سے ہو سکتی ہے۔ دل سے ‘ زبان سے اور ہاتھ پائوں سے یعنی دل میں اس کی قدر شناسی کا جذبہ ہو ‘ زبان سے اس کے کاموں کا اقرار ہو اور ہاتھ پائوں سے اس کے ان کاموں کے جواب میں ایسے افعال صادر ہوں جو کام کرنے والے کی برائی کو ظاہر کریں۔ شکر کی نسبت جس طرح بندوں کی طرف کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی طرف بھی کی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذرا ذرا سے کاموں کی پوری قدر کرتا ہے اور ان کو ان کا پورا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ شکر کا تضاد کفر ہے اس کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں اور محاورہ میں کسی کام یا احسان پر پردہ ڈالنے اور زبان و دل سے اس کے اقرار اور عمل سے اس کے اظہار نہ کرنے کے ہیں۔ اس سے ہماری زبان میں ” کفران نعمت “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی کفر وہ لفظ ہے جس سے زیادہ کوئی برا لفظ اسلام کی لغت میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور نعمتوں کو بھلا کر دل سے اس کا احسان مند نہ بننا ‘ زبان سے ان کا اقرار اور عمل سے اپنی اطاعت ‘ شعاری اور فرمانبرداری ظاہر نہ کرنا کفر ہے ‘ جس کے مرتکب کا نام کافر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح کفر اسلام کی نگاہ میں بدترین خصلت ہے اس کے بالمقابل شکر سب سے بہتر اور اعلیٰ صفت ہے ۔ قرآن کریم میں یہ دونوں الفاظ اس طرح ایک دوسرے کے بالمقابل بولے گئے ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : انا ھدینا السبلک اما شاکرا واما کفورا۔ (الدھر 76 : 3) ” ہم نے انسانوں کو راستہ بتا دیا۔ (اب وہ) یا شکر گزار ہے اور یانا شکر گزار (کافر) ہے۔ ” اور زیر نظر آیت میں فرمایا کہ ” اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں بخشوں گا اور اگر ناشکری کی تو پھر یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ “ اس تقابل سے خود بخود ثابت ہوجاتا ہے کہ اگر کفر اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور نعمتوں کی ناقدری کر کے اس کی نافرمانی کا نام ہے تو اس کے مقابلہ میں شکر کی حقیقت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی قدر جان کر اس کے احکام کی اطاعت اور دل سے فرمانبرداری کی جائے۔ چناچہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی شہادت اس طرح ہے کہ : ان ابراھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین شاکر الا نعمہ احبہ و ھدا الی صراط مستقیم۔ (النحل 16 : 121) ” بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی شخصیت میں ایک پوری امت تھا اللہ کے آگے جھکا ہوا تمام راہوں سے ہٹا ہوا اور وہ ہرگز مشرکوں سے نہ تھا۔ “…… اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانوں کی شکرگزاری یہ ہے کہ دین کی راہ اختیار کی جائے۔ احکام الٰہی کی پیروی کی جائے اور شرک سے پرہیز کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ہم کو قبول فرمائے گا اور علم و عمل میں ہم کو سیدھی راہ دکھائے گا۔ معلوم ہوا کہ شکر ایمان کی جڑ ‘ دین کی اصل اور اطاعت الٰہی کی بنیاد ہے یہی وہ جذبہ ہے جس کی بناء پر بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت اور محبت پیدا ہونی چاہئے اور اس قدر و عظمت اور محبت کے قولی و عملی اظہار کا نام شکر ہے اور اس کا بیان بہت وسیع ہے۔ زیر نظر آیت میں اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ” اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو گے کہ میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ جس طرح شکر مزید انعام و اکرام کا باعث ہے اسی طرح ناشکری اور کفر ان نعمت محرومی کا سبب ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت ‘ عزت ‘ علم وغیرہ کو اس کی نافرمانی میں خرچ کرنا سب سے بڑی ناشکری ہے۔ یہ تقریر دراصل موسیٰ (علیہ السلام) کی ہے جو وہ اپنی قوم کے سامنے کر رہے تھے جیسا کہ پیچھے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ یہ تقریر موسیٰ (علیہ السلام) اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں اور پھر تورات کے ان تمام احکامات کو دہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے پھر آپ ﷺ ایک طویل خطبہ دیتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی اس تقریر کی تفصیل کتاب استثناء کے مختلف ابواب میں ملتی ہے اور اس کے بعض مقامات تو فی الواقعہ کمال درجہ موثر و عبرت انگیز ہیں۔ چناچہ ان کے چندفقرات ہم اس جگہ عرض کرتے ہیں تاکہ ہم کو اندازہ ہوجائے کہ ان کا بیان کیسا ہے ؟ ” پس اے اسرائیل ! خدا وند تیرا خدا تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تو خدا وند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں ان پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے۔ (استثناء 10 : 12 ‘ 14) ” اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا اور تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہوگا اور کھیت میں مبارک … خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا… خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا… تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دم نہیں بلکہ سر ٹھہرائے گا تو پست نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا۔ (استثناء 28 ابواب 4 ‘ 6 ‘ 8 ‘ 10 ‘ 11 ‘ 28 ‘ 30 ملاحظہ کریں۔
Top