Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
(جن لوگوں نے) انکار کیا ہے ایک وقت آنے والا ہے کہ (آرزوئیں کریں گے) کاش ہم ماننے والوں میں ہوتے
انکار کرنے والے عنقریب حسرت کریں گے کہ کاش ہم مان لیتے : 2۔ یہ کلمات حسرت وافسوس کے ہیں ، جو کافروں کی زبان پر آخرت میں جاری ہوں گے ، خصوصا جب اپنا حشران پر منکشف ہوچکے گا اور طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہونے لگیں گے ” ربما ‘ خود کلمات حسرت وافسوس میں سے ہے اور یہ تکرار اس لئے کہ جب کوئی نئی شدت واقع ہوگی اور ساتھ ہی محسوس ہوگی کہ اس کی اصل وجہ انکا کفر ہی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حسرت ہر دفعہ تازہ ہوجائے گا اور اس میں ہر نوع اور ہر قسم کے کافر شامل ہیں جن میں قدر مشترک صفت کفر ہے خواہ وہ کسی طرح اور کسی قسم کا ہے ۔ (آیت) ” لوکانوا مسلمین “۔ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے یہ افسوس انکو اس وقت ہوگا جب گنہگار مسلمانوں کو کچھ دیر کیلئے دوزخ میں ڈال کر اور پاک ووصاف کرکے ان کی صحت ہوجانے کے بعد ان کو وہاں سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا چناچہ احادیث میں ہے کہ جہنم میں کافروں کے ساتھ کچھ مسلمان گنہگار بھی داخل ہوں گے اس پر کافر ان سے طنزا کہیں گے کہ تمہارا کلمہ شہادت بھی تمہارے کچھ کام تو نہ آیا معا اس وقت ان مسلمانوں کو وہاں سے نکالے جانے کا وقت ہوگا لہذا انکو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا بلکہ بعض روایات میں ہے کہ سب اہل قبلہ کو وہاں سے نکال لیا جائے گا اس وقت کافروں کی زبان سے یہ پر حسرت کلمات نکلیں گے جن میں حسرت ہی حسرت ہوگی یہ مضمون حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ حضرت انس ؓ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ، حضرت ابو سعید خدری ؓ جیسے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور تابعین عظام (رح) کے واسطہ سے بیان کیا گیا ہے اور یہ روایات ابن جریر ، ابن کثیر ، معالم التنزیل اور تفسیر کبیر امام رازی میں بیان ہوئی ہیں ، مختصر یہ کہ جن لوگوں نے اس کے خلاف انکار وسرکشی کی راہ اختیار کی ہے اور اپنی ہلاکت کا اپنے ہاتھوں سامان کر رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ حسرت وندامت کے ساتھ کہیں گے کہ کاش ہم نے انکار نہ کیا ہوتا تو آج ہم نے پھنسے پڑے ہوتے ۔ ” ربما “ کے لفظ پر بھی مفسرین نے بہت بحث کی ہے لیکن جب مضمون صاف ہے تو عام قاری کو اس گورکھ دھندا کی کوئی ضرورت نہیں ۔
Top