Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 91
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جَعَلُوا : انہوں نے کردیا الْقُرْاٰنَ : قرآن عِضِيْنَ : ٹکڑے ٹکڑے
ان لوگوں نے قرآن کریم کو پارہ پارہ کردیا ہے
تفسیر : ان لوگوں نے قرآن کریم کو بھی پارہ پارہ کردیا ہے : 91۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کو پارہ پارہ کردیا ہے ” عضین “ ” عضۃ کی جمع ہے اور عضۃ کے معنی ہی ایک حصہ یا ایک پارہ اس کی اصل دراصل عضوۃ جس کے معنی اعضاء کو جدا جدا کرنا ہے ۔ اہل کتاب خصوصا اور مکہ لوگ عموما ایسا کرتے تھے کہ جو بات مطلب کی ہوتی اس کو بیان کرتے اور تائید قرآن کریم سے حاصل کرتے اور اگر قرآن کریم کی بات ان کے بنائے ہوئے خیال اور گھڑے ہوئے دین کے مخالف ہوتی تو فورا اس کا انکار کردیتے گویا جس معیار کیلئے قرآن کریم آیا تھا وہی معیار اس پر انہوں نے آزمانا شروع کردیا۔ قرآن کریم کی تعلیم الہی کا مطلب تو یہ تھا کہ اس الہی تعلیم پر پچھلی تعلیمات کو پرکھ لیا جائے کہ جو بات اس ہدایت کے مطابق ہو وہ اصل ہے اور صحیح ہے لہذا اس کو سچ مان لیا جائے اور جو اس کے مطابق نہیں اس کو چھوڑ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ سابقہ کتب میں یہاں تحریف کردی گئی ہے لنکئ اہل کتاب نے یہی قرآن کریم کیلئے مقرر کردیا کہ جو بات انکی کتب سابقہ کے مطابق ہوتی اس کو تو تسلیم کرلیتے اور کہتے کہ یہ ہماری کتب میں ہے ۔ لہذا یہ صحیح ہے لیکن جتنا حصہ اس کی مطابقت نہ کرتا اس سے انکار کردیتے کہ یہ ہماری کتب کے مطابق نہیں ہے اس لئے ہم اس کو نہیں مانتے ۔ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ قرآن کریم نے جو اعلان کیا ہے کہ میرے اندر اختلاف نہیں ہے بلکہ ہر ایک آیت ایک دوسرے کے مطلب کو واضح اور خود اس کی تفسیر کرتی ہے اور اس کی تعلیمات باہم دگر مربوط ہیں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں تردید نہیں کرتیں لیکن لوگوں نے قرآن کریم کو اس طرح کردیا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کے بالکل خلاف ہوگیا ہے اور دونوں مضامین کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ بات واضھ ہوجاتی ہے کہ ان دنوں میں تضاد اور اختلاف ہے ایک جگہ کچھ بیان کیا گیا ہے اور دوسری جگہ کچھ بیان کیا گیا ہے حالانکہ قرآن کریم اس کی تردید کرنے کیلئے نازل ہوا تھا اور جس چیز کی تردید کیلئے نازل ہوا اس کو اس پر چسپاں کردیا گیا اور یہی وہ ظلم عظیم ہے جو قرآن کریم کو ماننے والوں نے اس کے ساتھ آج بھی روا رکھا ہوا ہے ، مثلا اللہ تعالیٰ ایک جگہ یہ ارشاد فرمائے کہ میرا سوا کوئی کسی چیز کا خالق نہیں اور دوسری جگہ یہ کہہ دے کہ فلاں نے بھی یہ کچھ پیدا کیا ہے ، ایک جگہ پرزور الفاظ میں یہ بیان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ کرنے والا نہیں اور دوسری جگہ خود ہی بیان کر دے کہ فلاں بھی زندہ کرتا تھا یا کرتا ہے ، ایک جگہ یہ بیان دے کہ بہتان ظلم عظیم ہے اور دوسری جگہ دوسروں کو بہتان کی تعلیم دینا شروع کردے ۔ ایک جگہ ارشاد فرمائے کہ جھوٹ اور کذب ہلاکت ہے اس کے قریب نہ جاؤ اور دو جگہ جھوٹ بولنے اور افتراء پردازی کی اجازت ہی نہ دے بلکہ حکم دے میرے حکم سے ایسا کرنا جائز ہے ، ایک جگہ حیلے اور بہانے کرنے والوں اور اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہونے والوں کو برا بھلا کہے اور دوسری جگہ ان کی تعریف کرنا شروع کر دے یہ ساری باتیں ظاہر ہے کہ اختلاف وتضاد کی ہیں اور بدقسمتی سے لوگوں نے قرآن کریم کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے کہ ان کا مفہوم ایک دوسرے کے خلاف ہو کر رہ گیا ہے ، یہ سارے لوگ اس حکم کی زد میں آتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا جرم عظیم کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں حالانکہ بحمدللہ قرآن کریم کی کوئی بات اپنی دوسر بات کی نقیض نہیں ہے اور تضاد اس میں مطلق نہیں پایا جاتا ، جن لوگوں نے قرآن کریم کو اس طرح سمجھا ہے یا لوگوں کو سمجھایا ہے وہ بلاشبہ ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں جو گناہ معمولی نہیں سمجھا گیا بلکہ بہت بڑا جرم ہے اگرچہ انہوں نے اپنی نادانی کے باعث کیا ہو اور بعد میں آنے والوں نے ان ہی کو دلیل بنا کر بےدھڑک یہاں شروع کردیا ہو ، جیسا کہ آج کل قرآن کریم کے مضمومین میں یہ سب کچھ روا رکھا گیا ہے اور ہم ساتھ ہی ساتھ اس کو بیان کرتے چلے آرہے ہیں اور انشاء اللہ العزیز بغیر لومۃ لائم اس کو بیان کرتے رہیں گے بلاشبہ ہم کو وحی نہیں اتری کہ وہ مطلب جو سمجھ لیا گیا تھا وہ غلط ہے اور اس کی جگہ یہ مطلب صحیح ہے لیکن قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بلاشبہ وحی الہی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ اقدس پر نازل ہوئی ہے اور قرآن کریم نے خود یہ ارشاد فرمایا ہے کہ (آیت) ” افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا “۔ النساء : 4 : 82) ” پھر کیا یہ لوگ قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے ؟ اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا تو ضروری تھی کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے ۔ “۔ معلوم ہے کہ قرآن کریم کا مطالبہ ہے کہ : 1۔ ہر انسان کے مطالب میں غور وفکر کرے پس یہ سمجھنا کہ وہ صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے سمجھنے کی چیز ہے صحیح نہیں ، ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کا تدبر اس طرح ہو کہ جو تدبر صاحب قرآن محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھا وہ چونکہ بالکل وہی تھا جو مراد الہی تھا اس لئے ہر مسلمان کا حق ہے کہ اپنے تدبر کو آپ ﷺ کے تدبیر کے تابع رکھے لیکن جس جگہ آپ ﷺ کی بات موجود نہ ہو قرآن کریم کی دوسری آیات میں سے کسی آیت کے کوئی بات خلاف ذہن میں نہ لائے کیونکہ اس طرح وہ ایک جگہ کو تدبر کرتے ہوئے دوسری جگہ اس کے خلاف کا ارتکاب کر بیٹھے گا اور اس کے تدبیر کا اس کو کوئی صلہ نہ ملے گا اور اس کی مثال ایسی ہوگی کہ آسمان سے گرا اور کھجور پر اٹکا۔ 2۔ جو بھی مطلب سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ صاحب وحی کے بعد غور وفکر ہی سے مطلب سمجھ سکتا ہے بغیر غور وفکر کے کوئی ذریعہ اس کے پاس اور نہیں ہوگا ۔ 3۔ اس کو براہ راست صاحب وحی کے تابع رہتے ہوئے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینا ہے اور دلائل ووجوہ سے نتیجہ اخذ کرنا ہے پس مقلد اعمی قرآن کریم میں غور وفکر کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ 4۔ جو شخص بھی قرآن کریم میں تدبر کرتا ہے اس پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم فطری ہدایت ہے اور فطرت کی راہنمائی ہر انسانی کے اندر قدرت نے رکھی ہے۔ اس لئے قرآن کریم کی یہ دو آیتیں 90 ، 91 کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب انسان اپنی اس فطری ہدایت سے کام لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت کی تو وہ بہت کچھ ان آیتوں سے حاصل کرسکتا ہے ، ہماری ہدایت ہے کہ آپ بھی بلاشبہ براہ راست دونوں آیتوں پر غور کریں اور اپنی فطری ہدایت سے مدد طلب کریں انشاء اللہ العزیز آپ پر بہت کچھ روشن ہوجائے گا جس کو نہ قلم بیان کرسکتی ہے نہ مقرر وخطیب اس کو اس قدر سمجھا سکتا ہے کیونکہ جو کام فطری ہدایت کرتی ہے وہ کوئی دوسری نہیں کرسکتا ۔
Top