Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 93
عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
عَمَّا : اس کی بابت جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
ان اعمال کے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے
یہ پوچھنا جو ہے انکے اعمال ہی کے متعلق ہے جنہوں نے یہ ظلم روا رکھا ہے : 93۔ ہر انسان اپنے اعمال کے متعلق جواب دہ ہے اور اس سے اس کے اعمال کے متعلق ضرور سوال کیا جائے گا یہ ممکن نہیں کہ ہم ان لوگوں کے کئے کے متعلق ان سے سوال نہ کریں کہ تم یہ کرتوت کیوں کرتے رہے ، اس جگہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اعمال کے مواخذہ کا اسلام نے جس سے تعلق بتایا ہے وہ نفس یعنی روح ہے ۔ چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” ان تقول نفس یحسرتی علی مافرطت فی جنب اللہ “۔ (الزمر 39 : 56) تو (قیامت میں) کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ اے افسوس اس پر کہ میں نے اللہ کے بارے میں یہ کمی کی ۔ “ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ (آیت) ” ولتنظر نفس ماقدمت لغد “۔ (الحشر 59 : 18) ” اور ہر جان یہ دیکھے کہ اس نے کل کیلئے کیا سامان کیا ہے ۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ علمت نفس ما احضرت “۔ (التکویر 81 : 14) ” اس دن ہر جان ‘ جان لے گی جو اس نے حاضر کیا ۔ “ ایک جگہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” علمت نفس ما قدمت واخرت “۔ (الانفطار 82 : 5) ” اس دن ہر جان جان لے گی جو اس نے آگے بھیجا اور جو اس نے پیچھے چھوڑا ۔ “ اور اس طرح سورة الانبیاء 231 : 47 اور سورة السجدہ 33 : 17 اور الفجر 89 : 29 ‘ 30 میں بیان ہوا ، پھر یہ بھی یاد رہے کہ دنیاوی جسم بھی انسان کا بدلتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ وہی جسم رہتا ہے اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ اعمال اور ان کے نتائج کی اصل ذمہ دار جنت و دوزخ کی لذت والم کی اصل احساس کرنے والی ہستی صرف روھ ہے اور جسم کی حیثیت صرف لباس والہ ‘ احساس کی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ جسم لاکھ بار بدلے مگر روح اگر وہی ہے تو وہ انسان وہی ہے اور اس کی اپنی ذمہ داری کی جزاء وسزا مل رہی ہے ، لوگ اپنی ظاہر بینی سے اصل زور جسم پر دیتے ہیں حالانکہ اس مٹی کے ڈھیر میں اگر روح کا خزانہ چھپا نہ ہو تو پھر اس مشت خاک میں دھرا کیا ہے ، دیکھو انسان بچپن سے لے کر بوڑھاپے تک وہی ایک شخص ہے جو پہلے تھا حالانکہ اس کی جسمانی ہئیت اور اس کے جسم کا مادہ ہر آن اور ہر لمحہ فنا ہو کر بدلتا ہے بیماریوں میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگیا ، پھر تندرستی کے بعد نئے ذرات داخل ہو کر لہلہانے لگا ، بچپن میں تم نے کچھ کیا اس بچپنے میں جب تم بلوغت کو پہنچ چکے تھے بلکہ بالغ ہوچکے تھے اور اب تم بوڑھے ہوچکے ہو ذرا غور کرو کہ اپنے اس جسم پر جب تم سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے البیلے نوجوان تھے اور اب اسی سال کے بوڑھے ہو تو غور کرو کہ تمہارا جسم وہی جسم ہے یا بدلتے بدلتے بس بدل ہی چکا ہے ۔ تم غلطی یہ سمجھتے ہو کہ ہر حال میں وہی جسم یکساں طور پر قائم ہے حالانکہ حکیم سے پوچھو تو وہ بتائے گا کہ اس کے ذرے کیونکر ہر آن جھڑتے اور گھستے رہے اور جو خوراک وہ کھاتا رہا ہو خون ہو کر بدل ما یتحال بنی اور انکی جگہ لیتی رہی پھر کیا ایسے ہر آن فنا ہوتے رہنے والے اور چند سال کے بعد بالکل بدل جانے والے کو دائم الوجود اعمال کا ذمہ دار اور ان کے نیک وبد کی اصل جزا یا سزا پانے کا مستحق ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن جس طرح دنیا میں کوئی مجرم آج بھاگ گیا اور چند سال کے بعد جب پکڑ کر لایا گیا تو وہ یہ غور نہیں کرسکتا کہ چونکہ وہ ہاتھ جس سے اس نے چوری کی تھی یا کسی کو قتل کیا تھا وہ لائق تعزیر نہیں رہے کیونکہ وہ روح جس نے اپنے ارادہ ونیت سے اس کام کو اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے ذریعے کرایا تھا جس طرح کل تھی بعینہ آج بھی ہے اور جو تکلیف اس کو اپنے پہلے جسم کے ذریعے کل پہنچ سکتی تھی بعینہ آج بھی پہنچ سکتی ہے اور اس جسمانی تغیر سے اس کی روحانی شخصیت میں اصلا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے پہلے ہی جسم پر زور دینا بےسود ہے ، اس طرح غور کرتے جاؤ تو تم بہت کچھ پالو گے ۔
Top