Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم كَفَيْنٰكَ : کافی ہیں تمہارے لیے الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : مذاق اڑانے والے
ان ہنسی اڑانے والوں کے لیے ہم تمہاری طرف سے بس کرتے ہیں
تفسیر : ہنسی اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم آپ ﷺ کو کفایت کرتے ہیں : 95۔ مکی زندگی میں جہاں نبی کریم ﷺ کو ایک طرف ہر طرح کی جسمانی وروحانی اذیتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں وہاں دوسری طرف تمسخر و استہزاء کا بھی ایک بےپناہ طوفان بدتمیزی برپا تھا ، فرمایا : اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان کافروں سے خائف نہ ہوں آپ ﷺ پر جو بھی زبان طعن دراز کرے گا اور جو بھی گستاخی کی جرات کرے گا اور اس طرح جو بھی مذاق کرے گا ہم خود ان کو سنبھال لیں گے اور ان کا شر آپ تک نہیں پہنچے گا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ نبی کریم ﷺ کے خلاف بہتان باندھنے والے اور افتراء کا طوفان برپا کرنے والے اسلام کو ختم کرنے کے لئے اپنی کوششیں داؤد پر لگانے والے یا تو حلقہ بگوش اسلام ہو کر پروانہ وار ان پر نثار ہونے لگے یا انہیں ایسی رسوائی اور ذلت سے دوچار کردیا گیا کہ آج ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں رہا ۔ بعض لوگوں نے تحریر کیا کہ اس سے مراد مکہ کے یہ پانچ رئیس ہیں جو اسلام کی مخالفت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی مخالفت اور دل آزاری میں سب سے پیش پیش تھے یعنی ولید بن مغیرہ ‘ عاص بن وائل ‘ عدی بن قیس اسود بن عبد یغوث اور حارث ان سب کو اللہ تعالیٰ نے ذلت کی موت سے ہلاک کیا ، اگرچہ اس بات کی ٹوہ مستحسن امر نہیں کہ اس بات کا کھوج لگایا جائے بس اتنا جان لیناکافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک طبقہ صاحب اثر ووجاہت مستہزئین کا تھا وہ کتنے تھے اور کیا کیا تھے اس کی ٹوہ کی ضرورت نہیں اور ایسے لوگوں کی اس وقت بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے مذہب ودین کو اس کی حیثیت کے مطابق سمجھنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس وقت علمائے اسلام کہلانے والے ان کے مذاق اور استہزاء کو اس طرح برداشت کرگئے ہیں کہ ان کی رسومات کو ادا کرنے کیلئے تو ہر وقت مستعد ہیں لیکن ان تک پیغام الہی کا پہنچانان ان کے اختیار کی بات نہیں رہا اس ملک کی بڑی بڑی شخصیتیں اس وقت مشرکین مکہ کے بھی کان کاٹ چکی ہیں ، لیکن علمائے کرام ہیں کہ ان کے تو نام آج بھی گنواتے نظر آتے ہیں لیکن آج کے ان مشرکین کا نام تک لینے کو تیار نہیں بلکہ ان کی طرف اشارہ کرنے سے بھی ان کے دل گھبراتے ہیں۔
Top