Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 96
الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَجْعَلُوْنَ : بناتے ہیں مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : معبود اٰخَرَ : کوئی دوسرا فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
جو اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی معبود بناتے ہیں ، عنقریب معلوم کرلیں گے کہ حقیقت حال کیا تھی ؟
اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود بنانے والے عنقریب جانیں گے کہ انہوں نے کیسی غلطی کی : 96۔ دین محمدی کا دوسرا بنیادی اصول اس عالم خلق میں انسان کی حیثیت اور درجہ ہے جو لوگ بتوں کو اور قبروں کو سجدہ کرتے ہیں ‘ پتھروں کو پوجتے ہیں ‘ درختوں کے آگے جھکتے ہیں ‘ جانوروں کو دیوتا مانتے ہیں ‘ جنات اور ارواح خبیثہ کے نام کی دہائی پکارتے ہیں ‘ آسمانی مخلوقات کو ارباب جانتے ہیں ‘ انسانوں کو خدا سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں انسان کے درجہ اور مرتبہ سے ناواقف ہیں ‘ وہ دراصل اس طرح انسان کو پتھروں سے ‘ درختوں سے ‘ جانوروں سے ‘ دریاؤں سے ‘ پہاڑوں سے اور چاند تاروں سے بہت کمتر جانتے ہیں انہوں نے درحقیقت انسان کے اصل مرتبہ اور حیثیت کو نہیں پہچانا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی وحی کی زبان سے جاہل عربوں کو یہ نکتہ سمجھایا کہ انسان اس عالم خلق میں تمام مخلوقات سے اشرف ہے اور اس دنیا میں اللہ رب العرت کی نیابت کا فرض انجام دینے کے لئے آیا ہے ۔ قرآن کریم کی دوسری ہی صورت میں آدم (علیہ السلام) کی خلافت کا قصہ محض داستان نہیں بلکہ انسان کی اصل حیثیت کو عیاں اور نمایاں کرنے والی تعلیم کا اولین دیباچہ ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان ہی اس عالم میں اللہ تعالیٰ کا صحیح معنوں میں نائب ہے اور اس کا سرخلافت الہی کے تاج سے ممتاز ہے ، کروڑوں مخلوقات الہی میں اللہ تعالیٰ کی امانت کا حامل وہی منتخب ہوا یہ منصب اعلی نہ فرشتوں کو ملا نہ آسمان کو عطا ہوا اور نہ ہی زمین کے حصے میں آیا نہ پہاڑ ہی اس کے مستحق قرار پائے صرف انسان ہی کا سینہ تھا جو اس امانت کا خزینہ دار ہوا اور اس کی گردن تھی جو اس بوجھ کے قابل نظر آئی ، پھر اس کی کیا بدبختی ہے کہ وہ اللہ ہی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے گویا اس طرح انسان نے اپنی ہی حیثیت کو نہ سمجھا غور کرو کہ مشرک ‘ بت پرست ‘ ستارہ پرست ‘ فطرت پرست ‘ قبر پرست اور شخصیت پرست غیروں کے آگے جھک کر یہ ثبوت دیتے ہیں کہ یہ ان کیلئے نہیں بلکہ وہ ان کیلئے بنے ہیں حالانکہ وحی الہی نے انسان کو یہ بتایا ہے کہ کائنات کی ہرچیز انسان کیلئے بنی ہے اور انسان خدا کے لئے بنا ہے اس لئے جب کائنات کا ہر ذرہ انسان کی خدمت گزاری میں مصرف ہے تو انسان کو بھی خدا ہی کی خدمت گزاری میں مصروف رہنا چاہئے ۔ ابروبادومہ وخورشید وفلک درکارند تاتونانے بکف آری وبغفلت نہ خوری ۔ مختصر یہ کہ زمین سے لے کر آسمان تک جو مخلوق بھی ہے انسان اس سے اشرف اور بلند تر ہے اور ساری مخلوق اس کے لئے ہے پھر اس انسان سے بڑھ کر اور کون نادان ہے جو مخلوقات میں سے کسی کو اپنا معبود اور مسجود بنائے اس حقیقت کے آشکارا ہونے کے بعد شرک کا کوئی پہلو بھی ایسا ہے جس میں کوئی سچا مسلمان گرفتار ہو سکے اور ایک آستانہ کو چھوڑ کر وہ کسی اور چوکھٹ پر اپنا سر جھکا سکے ، لہذا نبی اعظم وآخر ﷺ نے جس توحید کی تلقین کی وہ ان ہی دو اصولوں پر قائم ہے : (1) ۔ یہ کہ انسان تمام مخلوقات میں اشرف ہے اس لئے کہ مخلوق کے سامنے اس کا سر نہ جھکنا چاہئے ، (2) ۔ یہ کہ ہر قسم کی قوت ‘ ہر قسم کی قدرت اور تمام اوصاف کمالیہ ایک بزرگ و برتر ہستی کے لئے ہیں جو ماورائے عرش سے زیر فرش تک ہر ذرہ پر حکمران ہے اس کی اطاعت کے دائرہ سے کوئی نقطہ باہر نہیں انسان کی پیشانی کو ہر چوکھٹ سے اٹھ کر صرف اس کے آستانے پر جھکنا چاہئے ، ہماری تمام عقیدت ، ہماری تمام محبت ‘ ہمارا تمام خوف ‘ ہماری تمام امیدیں ‘ ہماری تمام دعائیں ‘ تمام التجائیں ہماری تمام عاجزیاں صرف اس ایک درگاہ پر نثار ہوں اور اس کے رحم وکرم کے سہارے ہماری زندگی کا ہر لمحہ بسر ہو۔
Top