Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 97
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ
وَلَقَدْ نَعْلَمُ : اور البتہ ہم جانتے ہیں اَنَّكَ : بیشک تم يَضِيْقُ : تنگ ہوتا ہے صَدْرُكَ : تمہارا سینہ (دل) بِمَا : اس سے يَقُوْلُوْنَ : جو وہ کہتے ہیں
ہم اس بات سے بیخبر نہیں کہ ان لوگوں کی باتوں سے تمہارا دل رکنے لگتا ہے
ہمیں معلوم ہے کہ ان لوگوں کی باتوں سے تیرا دل دکھتا ہے : 97۔ دل کی یہ تنگی ایک طبعی امر ہے نبی اعظم وآخر ﷺ کا قلب خلق خدا کے لئے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے لبریز تھا آپ ﷺ جب اپنی قوم کی گمراہی اور اس پر ان کے اصرار کو دیکھتے تو آپ ﷺ کا دل درد سے بھر جاتا اور شدید قسم کی گھٹن محسوس ہونے لگتی اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو اس غم واندوہ سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ تلقین فرما رہے ہیں کہ جب ان کی نافرمانی اور کجروی کے باعث آپ ﷺ غمگین ہوجائیں تو اس وقت اپنے رب قدوس کی تسبیح اور اس کی حمد میں مشغول ہوجایا کریں اور اپنا سرنیاز اس کی بارگاہ صمدیت میں جھکا دیا کریں ، غم واندوہ کے بادل خود بخود چھٹ جائیں گے اور دل کی افسردگی اور گھٹن دور ہوجائے گی ، ” فرمایا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جاؤ اور اپنے رب ہی کی طرف راغب ہو ۔ “ فارغ ہونے سے مراد اپنے مشاغل سے فارغ ہونا ہے خواہ وہ دعوت وتبیغ کے مشاغل ہوں یا اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم وتربیت کے مشاغل یا اپنے گھر بار اور دنیوی کاموں کے مشاغل ، حکم الہی کا منشاء یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت ومشقت میں صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور جو پیغام آپ سنا رہے ہیں اس کو کو جب لوگ تسلیم نہیں کرتے تو دل تنگ نہ ہو کہ آپ ﷺ نے اپنا فرض ادا کردیا اب اگر اس سے کوئی نقصان ہوگا تو نہ ماننے والوں کا اپنا ہوگا اور جو شخص اپنے اپنا نقصان کرنے کے لئے تیار ہے آپ ﷺ اس کے لئے کیوں دل تنگ ہوں ، وہ آپ کا پیغام سن کر جو کچھ کہتے ہیں اس کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے کفر وشرک ‘ انکار و استکبار اور طنز و تمسخر کی باتیں ہم اچھی طرح سن رہے ہیں آپ ﷺ ان کی باتیں سن کر خاموشی اختیار کریں گے تو ہم خود ان کو جواب دیں گے اور وہ جواب ایسا ہوگا جس سے آپ ﷺ کو دلی سکون ملے گا ۔
Top