Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 100
اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں سُلْطٰنُهٗ : اس کا زور عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَوَلَّوْنَهٗ : اس کو دوست بناتے ہیں وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هُمْ : وہ بِهٖ : اس (اللہ) کے ساتھ مُشْرِكُوْنَ : شریک ٹھہراتے ہیں
اس کا زور تو انہی پر چلتا ہے جو اسے اپنا رفیق بناتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں
شیطان کا زور کن لوگوں پر لگتا ہے ؟ وہی جو اس کو دوست بناتے ہیں : 114۔ جو لوگ اپنی اغراض نفسانی کے باعث شیطان ہی سے دوستی کرتے ہیں ‘ اس کی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو یعنی نبیوں ‘ رسولوں اور اللہ کے نیک بندوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے کہ کسی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا اور ہر برائی میں وہ آگے آگ ہوتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد الہی یہ ہے کہ جو لوگ سرکشی کریں گے میں ان کی نگاہیں اپنی نشانیوں سے پھیر دوں گا یعنی جو کوئی جان بوجھ کر سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ وہ دلیلون اور روشنیوں سے متاثر ہونے کی استعداد کھو دیتا ہے پھر واضح کردیا کہ یہ حالت اس لئے پیش آئے گی کہ انہوں نے نشانیاں جھٹلائیں اور غافل رہے ‘ پس معلوم ہوا جو کوئی نشانیاں جھٹلاتا ہے اور غفلت سے باز نہیں آتا وہ کبھی سچائی نہیں پاسکتا یہی مطلب نگاہ پھرا دینے کا ہے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کسی آدمی کو بےعقل اور گمراہی پر مجبور کردیتا ہے ۔ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ ” اس کا زور تو انہی پر چلتا ہے جو اسے اپنا رفیق بناتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ “ گویا شیطان کا لوگوں پر کچھ تسلط مطلق نہیں ہے کہ وہ کسی سے کوئی کام بزور بازو کرائے ، اس کا کام صرف یہ ہے کہ جو اس کو اپنا دوست یار بناتا ہے تو اس کی دوستی کا حق اس طرح ادا کرتا ہے کہ چونکہ وہ خود مجموعہ گمراہی ہے اس کو بھی اپنی گمراہی سے وافر حصہ دیتا ہے اور اس کی خوب آؤ بھگت کرتا ہے لیکن اگر وہ لوگ اس کو اپنا محبوب اور دوست نہ جانتے تو وہ انکو اپنی گمراہی سے کیوں حصہ دیتا ، اس کی تفصیل ہم پیچھے سورة الاعراف کی آی 146 ‘ سورة الحجر کی آیت 42 میں بیان کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ فرمائیں ۔
Top