Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ : جو كَفَرَ : منکر ہوا بِاللّٰهِ : اللہ کا مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِيْمَانِهٖٓ : اس کے ایمان اِلَّا : سوائے مَنْ : جو اُكْرِهَ : مجبور کیا گیا وَقَلْبُهٗ : جبکہ اس کا دل مُطْمَئِنٌّۢ : مطمئن بِالْاِيْمَانِ : ایمان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّنْ : جو شَرَحَ : کشادہ کرے بِالْكُفْرِ : کفر کے لیے صَدْرًا : سینہ فَعَلَيْهِمْ : تو ان پر غَضَبٌ : غضب مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيْمٌ : بڑا عذاب
جو کوئی ایمان لانے کے بعد پھر اللہ سے منکر [ ہوا اور اس کا دل اس انکار پر رضامند ہوگیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے مگر ہاں ، جو کوئی کفر پر مجبور کیا جائے اور (بےبس ہو کر کوئی بات منہ سے کہہ دے) اس کا دل اندر سے ایمان پر مطمئن ہو
اللہ کا غضب اور عذاب کن لوگوں پر بھڑکتا ہے ؟ 120۔ ہر شخص کی استعداد عقلی وفکری ایک جیسی نہیں ہوتی مشکلات کے بعض لوگ اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ وہ ان سے قطعا نہیں گھڑتے حتی کہ ان کی جان پر بن جائے تو وہ جان پر کھیل جانا بالکل آسان سمجھتے ہیں اور صدر اول میں سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے جن کی روشنی آج تک مدھم نہیں ہوئی کہ مخالفین نے ان کو کفر پر مجبور کیا اور اس مقصد کے لئے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے لیکن وہ اللہ کے بندے اتنے شجاع اور بہادر نکلے کہ جان پر کھیل جانا ان کے لئے ذرا مشکل نہ نکلا اور وہ بڑے سکون کے ساتھ مظالم سہتے ہوئے اپنے خلق حقیقی سے جا ملے حتی کہ ان میں ایسے بھی تھے جن کی ٹانگوں کو دو مخالف سمت بھگائے جانے والے اونٹوں کے ساتھ کس کو باندھا گیا اور پھر ان اونٹوں کو مخالف بھگا کر انکے دو ٹکڑے کردیئے گئے اور اس اذیت میں بھی انہوں نے جان دینا کفر اختیار کرنے پر آسان سمجھا اور وہ بخوشی جان دے گئے اور اپنے مالک و خالق حقیقی کے ہمیشہ رہنے والے باغات میں جا بسے لیکن ایک آدھ مثال ایسی بھی سامنے آئی ہے کہ جب کسی شخص کو مخالفین نے کفر پر مجبور کیا اور دنیوی زندگی کی مشکلات کو اس نے دیکھا تو مجبورا ان کے سامنے کفر اختیار کرلیا حالانکہ اس کا دل ہر لحاظ سے اسلام پر مطمئن تھا اور اس نے جو کچھ کیا محض ان مشکلات سے گھبرا کر کیا اور اپنی جان بچا لی حالانکہ یہ حالت اس نے فقط ان مشکلات سے گھبرا کر اختیار کی ۔ بس اسی طرح کے لوگوں کو بھی وحی الہی نے چھوٹ دے دی کہ اگرچہ یہ کوئی خوبی کا کام نہیں تاہم ان مجبوریوں کے باعث جو کچھ ہوا ان سے درگزر کردی جائے گی ، پھر کسی فعل کا کرنا یا اس کا ہوجانا اس میں کتنا فرق ہے صاحب عقل لوگوں پر بالکل واضح ہے ، یہ حالت اس شخص کی بیان کی جارہی ہے جس سے یہ فعل سرزد ہوجائے ، اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ جان بچانے کے لئے کلمہ کفر کہہ دینا چاہئے بلکہ یہ رخصت ہے اس لئے جس سے ایسا ہوجائے اور ایمان دل میں رکھتے ہوئے وہ زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دے تو گویا اس نے مجبورا ایسا کیا اگرچہ بات خوبی کی نہ ہوئی تاہم اس پر مواخذہ نہیں ہوگا وہ اگرچہ انعام الہی کا مستحق تو نہ ہوا لیکن کسی جرمانہ سے بھی اس کو بچالیا گیا اور یہ رحمت الہی کا تقاضا تھا جس نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے کر کسی طرح کے عذاب کا مستحق نہ ہونے دیا ، مقام عزیمت کیا تھا ؟ وہ تو یہی تھا کہ خواہ اس کا جسم تکا بوٹی کردیا جاتا ، بہرحال وکلمہ حق ہی کا اعلان کرتا اور اس کے جسم کو تکا بوٹی کرنے والے خود حیران و ششدر رہ جاتے ۔ صدر اول میں ان لوگوں کی کمی نہ تھی ، یہ خباب بن ارت ؓ ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے اور یہ بلال حبشی ؓ ہیں جن کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کردیا گیا اور تپتی ہوئی ریت پر ڈال کر گھسیٹا گیا مگر ان کی زبان پر احد ، احد کی آواز بدستور جاری رہی پھر دیکھو کہ یہ حبیب بن زید ؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مسیلمہ کذاب کے حکم سے کا تا جاتا تھا اور مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لو لیکن وہ سمجھ چکے تھے کہ نبوت و رسالت تو میرے رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم کردی گئی اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا یا پرانا نبی نہیں آئے گا تو انہوں نے ہر مرتبہ مسیلمہ کو کذاب ہی کہا یہاں تک کہ اس طرح کٹ کٹ کر انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی ، یہ یاسر ؓ اور سمیہ ؓ ہیں جو عمار ؓ کے والد اور والدہ ہیں جن کو اذیتیں دے دے کر عمار ؓ کے سامنے ختم کردیا گیا اور وہ تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوگئے اور ان لوگوں کی داستانیں تو بہت لمبی وطولانی ہیں لیکن اس جگہ بطور حوالہ ان کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے کہ ان لوگوں نے جان بچانے کے لئے کبھی کوشش نہیں کی بلکہ جان کو جان دینے والے کے سپرد کردینا اچھا اور بہتر جانا اور انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے اپنی جانیں قربان کیں۔ کوئی اللہ کے بندے ایسے بھی تھے کہ جب ان کو اذیتیں دی گئیں کہ وہ ان کی تاب نہ لاتے ہوئے کلمہ کفر کو کہہ گئے اور کفار سے نجات پاتے ہی روتے اور چیختے ہوئے محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ما ترکت حتی سببتک وذکرت الہتھم بخیر ” یارسول اللہ ﷺ مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ ﷺ کو برا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا ۔ “ تو ان صاحب کی بات سن کر نبی اعظم وآخر ﷺ کو ذرا ملال نہ آیا اور فرمایا کیف تجد قلبک ” تم نے اس وقت اپنے دل کا کیا حال پایا ؟ ” انہوں نے عرض کیا مطمئنابال ایمان “ ” میں نے اپنے دل کو ایمان پر پوری طرح مطمئن پایا ۔ “ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیر نظر آیت نازل ہوئی یا آپ ﷺ نے اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی اور ان صحابی کو اپنا حال معلوم ہوگیا ، لیکن افسوس کہ ہمارے مفتیوں نے ایسے حالات میں جان بچانا فرض ہے کہ فتوی صادر کرنا شروع کردیئے اور ان جان دینے والوں کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا گیا گویا خوبی کو ذم اور ذم کو خوبی بنا دیا اور اس محنت کا قوم سے خوب عوضانہ کمایا جس کے جواز کی کوئی صورت شریعت اسلامی میں ہرگز نہ تھی ، اس طرح کا فتوی صادر کر کے انہوں نے کفر کے لئے اپنا سینہ کھول دیا اور اس معاملہ میں شرح صدر پایا حالانکہ اس کے متعلق حکم الہی یہ تھا کہ : ” جو کوئی دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلے اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے لوگوں کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔ “ جو شخص مجبور کردیا گیا تھا اور اس مجبوری کے باعث اس سے کوئی بات سرزد ہوگئی حالانکہ اس کا دل کفر کی بات پر ہرگز مطمئن نہ تھا اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا دروازہ کھول کر اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کو اس کی اپنے نفس کی ملامت کے باعث معافی دے دی ، لیکن ان مفتیوں پر کیا گزری تھی کہ انہوں نے حقیقت بیان کرنے کے بجائے جان بچانے کے فتوی فروخت کرنا شروع کردیئے اور ہلدی کی ایک گانٹھ پر شفا کی دکانیں کھول دیں اور بیماروں کو صدائیں دینے لگے اور جو پھنس گیا اس سے خوب مال کھایا ، انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ آنے والی آیت کریمہ خود ہی اس جواب دے رہی ہے ۔
Top