Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 66
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمُ : اس لیے کہ وہ اسْتَحَبُّوا : انہوں نے پسند کیا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : زندگی دنیا عَلَي : پر الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی سے محبت کی نیز اس وجہ سے کہ اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) منکروں پر راہ (سعادت ہرگز ہرگز) نہیں کھولتا
انہوں نے آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی سے محبت کی : 121۔ گزشتہ آیت میں عذاب عظیم کی خبر کن کو سنائی گئی تھی ؟ ان ہی لوگوں کو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف مراجعت کی اور پھر واپس لوٹ آنے کی ہمت ان کو نہ ہوئی اور ایسے گھبرائے کہ دوبارہ انہوں نے اسلام کا نام سننا پسند ہی نہ کیا یا ان لوگوں کو جنہوں نے جان بچانا فرض قرار دیا اور لوگوں کے لئے مشکل اوقات کا آسان حل تجویز کردیا ۔ اور ان کو یہ نسخہ دے کر نسخہ لکھنے کی اجرت نقد وصول کرلی اور اپنی پگڑی اور داڑی کے بال میں کمزور دل کے لوگوں کو چھپا لینے کی پوری کوشش کی ‘ فرمایا انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی سنا دیا اور وہ اس لئے کہ اس جواب کے علاوہ اور کوئی جواب اس سوال کا صحیح اور درست نہ تھا فرمایا انہوں نے یہ اس لئے کیا کہ ” انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور ان کا ایسا کرنا دراصل کفر کرنے کے مترادف تھا اور قانون الہی یہ ہے کہ اللہ کفر اختیار کرنے والوں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا ۔ “ کتنا صاف اور واضح جواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے پیغمبر ﷺ کو سنا دیا ۔ تاکہ آپ ﷺ اپنی امت کو من وعن سنا دیں اور آپ ﷺ نے بھی ذرا دیر نہ کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصول شدہ جواب فورا سنا دیا لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے مفتیوں اور مولویوں کا کہ انہوں نے بھی اس جواب پر ذرا کان نہ دھرے اور سنی ان سنی کردی اور اس چیز کے بچانے کی سرتوڑ کوشش کی جس کو بچانا ان کے بس کی بات نہ تھی ، ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کا جواب بھی ان کو نقد بہ نقد سنا دیا گیا چناچہ آنے والی آیت پر نظر پھیریں ۔
Top