Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ
وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : تم نہ کہو لِمَا : وہ جو تَصِفُ : بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُكُمُ : تمہاری زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ ھٰذَا : یہ حَلٰلٌ : حلال وَّھٰذَا : اور یہ حَرَامٌ : حرام لِّتَفْتَرُوْا : کہ بہتان باندھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : بہتان باندھتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ لَا يُفْلِحُوْنَ : فلاح نہ پائیں گے
اور ایسا نہ کرو کہ تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے بےدھڑک نکال دیا کرو اور حکم لگا دو ، یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے ، اس طرح حکم لگانا اللہ پر افتراء پردازی کرنا ہے جو لوگ اللہ پر افتراء پردازیاں کرتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں
حلت و حرمت میں چھوٹ نہ ہوجاؤ کہ اپنی مرضی سے حلال و حرام ٹھہرانے لگو : 130۔ فرمایا اپنی زبانوں کو کذب سرائی کے لئے بےلگام نہ چھوڑو کہ جس چیز کو چاہا اپنی رائے اور قیاس سے حرام ٹھہرا دیا جس کو چاہا حلال کہہ دیا ، حلال و حرام ٹھہرانے کا حق تو صرف وحی الہی کو ہے اور تمہارے پاس اپنے ادہام وآراء کے سوا ‘ کوئی وحی کی روشنی نہیں جو قرآن کریم کے خلاف پیش کرسکو ، یہ آیت ان لوگوں کے خلاف بیان دے رہی ہے جو محض اپنے گھڑے ہوئے قیاسوں کی بناء پر جس چیز کو چاہتے ہیں حرام ٹھہرا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں حلال قرار دے لیتے ہیں اگرچہ کوئی نص قطعی موجود نہ ہو ۔ قرآنی اصل اس کے متعلق یہ ہے کہ اللہ کی تمام پیدا کی ہوئی چیزیں انسان کے برتنے کے لئے ہیں الا وہ جو مضر ہیں اور وحی الہی نے ان سے روک دیا ہے پس معلوم ہوا کہ ہرچیز مباح ہے جب تک شریعت اسے حرام نہ ٹھہرا دے اور شریعت کے معنی یہاں قرآن وسنت کے نصوص قطعیہ ہیں نہ کہ کسی فرد یا گروہ کی مجرد رائے اور قیاس اور اس کی تشریح پیچھے گزر چکی ہے جہاں ارشاد فرمایا کہ : ” اے اولاد آدم ! عبادت کے ہر موقعہ پر اپنے جسم کی زیب وزینت سے آراستہ رہا کرو ‘ نیز کھاؤ پیو مگر حد سے نہ گزر جاؤ اللہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں سے کہو اللہ کی ذینتیں جو اس نے اپنے بندوں کے برتنے کے لئے پیدا کی ہیں اور کھانے پینے کی حلال اور طیب چیزیں کس نے حرام کی ہیں ؟ تم کہو نعمتیں تو اس لئے ہیں کہ ایمان والوں کے کام آئیں ، دنیا کی زندگی میں زندگی کے مکروہات کے ساتھ اور قیامت کے دن ہر طرح کی مکروہات سے خالص ! دیکھو ‘ اس طرح ہم ان لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں جو جاننے والے ہیں ، اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں سے کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ بےحیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں ‘ گناہ کی باتیں ‘ ناحق زیادتی یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لئے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ۔ “ (الاعراف : 7 : 32 : 33) یہ عام احکام ہیں اور ان کی تشریحات بہت وسیع ہیں اور کھانے پینے میں حلت و حرمت کا قانون الہی گزشتہ آیت 115 میں گزر چکا جس کا مفصل بیان گزشتہ سورتوں میں بھی گزرا جس کی نشاندہی آیت 115 میں کردی گئی ہے اور اس کی پوری تفصیل جو مکمل وضاحت سے کی گئی وہ سورة الانعام میں اور المائدہ میں گزر چکی ہے ۔ اور اس جگہ فرمایا ” ایسا نہ کرو کہ تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے ‘ بےدھڑک نکال دیا کرو اور اپنے جی سے ٹھہرا کر حکم لگا دو کہ یہ چیز حلال ہے ‘ یہ چیز حرام ہے ، اس طرح حکم لگانا اللہ پر افتراء پردازی کرنا ہے اور یاد رکھو کہ جو لوگ اللہ پر افتراء پردازیاں کرتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں ۔ “
Top