Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور مخالفوں کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہارے ساتھ سختی کی گئی ہے اور اگر تم نے صبر کیا تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے
سختی کے جواب میں سختی ضروری ہو تو صرف اتنی ہی کرو : 140۔ اس کے بعد فرمایا (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم فھو خیرللصابرین “۔ اگر مخالف ناحق کوشی میں سرگرم ہے اور سختی و زیادتی پر اتر آیا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تم بھی آپے سے باہر ہوجاؤ ایسا کرنا راست بازی کا طریقہ نہ ہوگا ایک برائی کے جواب میں دوسری برائی کا ارتکاب ہوگا جو ممکن ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ سخت برائی ہوجائے بہتری تو اس میں ہے کہ سختی کا جواب سختی سے نہ دو جھیل جاؤ ‘ پروا نہ کرو ‘ بخش دو ‘ اس میں تمہاری اصل جیت ہے لیکن اگر طبیعت پر قابو نہیں پاتے اور سختی کا جواب سختی سے دینا ہی چاہتے ہو تو پھر انصاف کا سررشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹے جتنی اور جیسی سختی تمہارے ساتھ کی گئی ہے ویسی ہی اور اتنی ہی تم بھی کرلو ، اس سے آگے نہ بڑھو ، ذرا بھی بڑھے تو یہ ظلم ہوگا اور ظلم راستی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا ۔ غور کرو کہ قرآن کریم کا محض ایک لفظ یا محض ایک ترکیب کس طرح مقاصد ومسائل کے فیصلے کردیا کرتی ہے پہلے بصیغہ امر حکم دیا گیا تھا (آیت) ” ادع الی سبیل ربک “۔ پس چاہئے تھا کہ یہاں بھی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا اور کہا جاتا کہ اگر تمہارے ساتھ سختی کی گئی تو تم بھی ویسے سختی کرو مگر نہیں ‘ ایسا نہیں فرمایا بلکہ کہا (آیت) ” وان عاقبتم “۔ اگر ایسا ہو کہ تم مخالف کی سختی کے جواب میں سختی کرنا چاہو تو چاہئے کہ حد سے نہ بڑھو ، اس سے معلوم ہوگیا کہ سختی کے جواب میں سختی کا حکم نہیں ہے محض اجازت ہے یعنی اگر ایک آدمی وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو اس بارے میں بہتری اور خوبی کا اصل مقام ہے جھیل جانا ‘ بخش دینا اور معاف کردینا تو پھر اس کو بدلے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اجازت کو (آیت) ” بمثل ما عوقبتم “۔ سے مقید کردیا ہے تاکہ زیادتی کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوجائے اب دو ہی راہیں کھلی رہ گئیں ، عزیمت تو اس میں ہوئی کہ جھیل جاؤ ، بخش دو اور معاف کر دو ۔ رخصت اس کی ہوئی کہ جتنی سختی کی گئی ہے اتنی ہی تم بھی کرلو اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکتے ۔ اس آیت کی تفسیر میں امام غزالی (رح) کی ایک تقریر بہت مقبول ہے جو انہوں نے قکامی المستقیم میں لکھی ہے اور بعد کے مفسرین نے عموما اسے اختیار کرلیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ استعداد وفہم کے لحاظ سے ہر انسان کی طبیعت یکساں نہیں اور ہر ذہنی حالت ایک خاص طرح کا اسلوب خطاب چاہتی ہے ، ارباب دانش کے لئے استدلال کی ضرورت ہوتی ہے عوام کے لئے موعظت کی اور اصحاب خصومت کے لئے جدل کی پس اس آیت میں قرآن کریم نے تینوں جماعتوں کے لئے یہ تینوں طریقے بتلا دیئے ہیں ارباب دانش کے لئے استدلال یعنی حکمت کے ساتھ مخاطب کرو عوام کو موعظت کے ساتھ اور ارباب خصومت کے لئے جدل کی بھی اجازت ہے مگر بطریق احسن ۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب “۔
Top