Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 25
لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۙ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ۠   ۧ
لِيَحْمِلُوْٓا : انجام کار وہ اٹھائیں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ (گناہ) كَامِلَةً : پورے يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَمِنْ : اور کچھ اَوْزَارِ : بوجھ الَّذِيْنَ : ان کے جنہیں يُضِلُّوْنَهُمْ : وہ گمراہ کرتے ہیں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر اَلَا : خوب سن لو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ لاتے ہیں
قیامت کے روز یہ لوگ اپنا پورا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کے بوجھ کا ایک حصہ بھی جنہیں یہ بغیر علم و روشنی کے گمراہ کر رہے ہیں تو دیکھو کیا ہی برا بوجھ ہے جو وہ اپنے اوپر لادے چلے جا رہے ہیں
قیامت کے روز وہ لوگ اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے : 30۔ قرآن کریم میں (آیت) ” لا تزر وازرۃ وزر اخری “۔ کی آیت پانچ بار آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا “ جس کا مطلب بالکل واضح اور صاف ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لئے یا انکی ناراضگی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھائیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لئے چھوڑ دیں گے لہذا جس پر کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہوجائے اس کو چاہئے کہ وہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کرلے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کا مستحق نہ بنائے ، لیکن درج ذیل آیت میں اس کے برخلاف یہ فرمایا گیا کہ ” قیامت کے روز وہ اپنا پورا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کے بوجھ کا ایک حصہ بھی جنہیں یہ بغیر علم و روشنی کے گمراہ کر رہے ہیں “ اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کا بوجھ اٹھانے کا بھی کہا جا رہا ہے تو گویا پہلی آیت اور دوسری آپس میں مخالف ہوگئیں اور بات صرف سمجھنے کی ہے کہ انہوں نے جو بوجھ دوسروں کا اٹھایا وہ بھی دراصل انہی کا اٹھوایا ہوا تھا لہذا انکو اتنا ہی حصہ ملا جو انہوں نے اٹھوایا تھا ، ۔ وضاحت اس کی یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں بات واضح کی تھی کہ پوچھنے والوں نے جو پوچھا تھا وہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں اللہ نے کیا اتارا ہے اس کا سیدھا جواب دینے کی بجائے انہوں نے الٹا جواب دے کر ان کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے اور سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی لہذا انہوں نے ان کے کہنے کے باعث سیدھا راستہ اختیار نہ کیا تو گویا وہ باعث ہوئے ان کے سیدھا راستہ نہ اختیار کرنے کے اسی طرح انہوں نے ان کو غلط راستے پر ڈالنے کی جو سعی کی وہ دراصل ان کا اپنا عمل تھا اور اس کا انہوں نے وبال بھی اٹھایا لیکن ایک لحاظ سے وہ دوسروں کا بھی تھا کہ وہ سیدھی راہ سے ہٹانے کا باعث ٹھہرے تھے لہذا اس طرح سے ان کا بوجھ کہا گیا لیکن اس میں کوئی مخالفت نہ رہی وہ صورت تب تھی جب سیدھی راہ اختیار نہ کرنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہ رہتا تو اس طرح وہ بری الذمہ قرار دیئے جاتے حالانکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کے سیدھی راہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے جو عذاب ہوگا وہ انہیں پر ہوگا لیکن اس کا باعث کون ہوا وہی جنہوں نے ان کی غلط راہنمائی کرنے کا حصہ تھا وہ دراصل انہی کا تھا جس کا بوجھ ان پر پڑا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” جو شخص لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اس کی دعوت پر جتنے لوگ ہدایت قبول کرتے ہیں ان سب کا ثواب اسے ملتا ہے اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی اور جو شخص گمراہی کی طرف بلاتا ہے اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں ان سب کا گناہ بھی اس پر لادا جاتا ہے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ “ اس لئے دراصل نیکی کی دعوت کا ثواب بھی اس کا عمل ہے اور برائی کی دعوت دینے والے کی دعوت کا بوجھ بھی اس کا اپنا ہی بوجھ ہوتا ہے ۔ مزید وضاحت کے لئے سورة الانعام کی آیت 31 کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
Top