Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس غرض سے چن لیتا ہے کہ اپنے حکم سے فرشتے { الروح } کے ساتھ اس پر بھیجے اور اسے حکم دے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کر دو ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس مجھ سے ڈرو
وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے : 3۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبوت جب تک جاری تھی عطیہ الہی تھی امر استحقاقی نہیں تھی اور روح سے اس جگہ مراد وحی الہی ہے یعنی نزول ملائکہ ونزول وحی اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے کوئی اور اس میں دخیل نہیں ہے ، جس طرح روح سے ہرچیز کی زندگی ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ وحی الہی حیات بخش ہے ۔ زندہ ہونے کو تو لوگ قرآن کریم سے پہلے بھی زندہ تھے لیکن اس روح پاک کے نزول کے بعد حجاز کے صحراؤں میں جس حسین و جمیل زندگی کے چمنستان آباد ہوئے اس سے تو دنیا کی نگاہیں آشنانہ تھیں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہی تھا تو عبدالمطلب کے اس یتیم پوتے کے علاوہ اور کوئی نظر نہ آیا ؟ کسی رئیس اعظم کو نبی بنایا ہوتا تو لوگ اس کی باتیں دھیان سے سنتے اور اس کا کہنا مانتے ، ان کے اس سوال کو مسترد کرنے کے لئے فرمایا کہ نبی کے انتخاب کے لئے تمہارا مقرر کیا ہوا میعار غلط ہے ، نبی تو وہ بنتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ خود نبی بنانا چاہتا ہے جسے وہ ان قوتوں اور استعدادوں سے مالا مال کرکے پیدا کرتا ہے جو بار نبوت کو اٹھانے کے لئے ضروری ہیں ۔ غور کرو کہ قرآن کریم نے جا بجا وحی الہی کو (الروح) سے تعبیر کیا ہے اس جگہ بھی (الروح) سے مقصود وحی الہی ہے اور ظاہر ہے کہ وحی کے لئے اس سے بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی ۔ وہ نظر نہیں آتی لیکن جس جسم پر اترتی ہے ۔ وہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور اس کے اندر سے اس کی صدائیں اٹھنے لگتی ہیں نیز اس اعتبار سے بھی (الروح) ہے کہ انسانی سعادت کی زندگی اسی سے قائم ہے ، چناچہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” استجیبوا اللہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم “۔ (الانفال 8 : 24) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس حقیقت کو ” روح القدس “ سے تعبیر کیا ہے اور حواریوں نے بھی اسی معنی میں اسے استعمال کیا ہے اگرچہ بعد میں اس کی حقیقت عیسائیوں پر مشتبہ ہوگئی ۔ اور نبی کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے اس کا کام اپنے لئے جائیدادیں بنانا نہیں بلکہ یہ جھوٹے نبیوں کا شیوہ ہی ہو سکتا ہے ، کبھی کسی نبی نے اپنے لئے ناحق برتری کا دعوی نہیں کیا اس کی بعثت کی ایک اور صرف ایک ہی غرض ہوا کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی الہ اور معبود نہیں وہی ایک الہ ہے اور ہر انسان کو اس کی نافرمانی اور حکم عدولی سے ڈرنا چاہئے اور یہی بات نبی اعظم وآخر ﷺ نے آکر ارشاد فرمائی کہ لوگو ! خبردار ہوجاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خاص اللہ ہی سے ڈرو۔
Top