Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 31
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْزِی اللّٰهُ الْمُتَّقِیْنَۙ
جَنّٰتُ : باغات عَدْنٍ : ہمیشگی يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ ان میں دخل ہوں گے تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں لَهُمْ : انکے لیے فِيْهَا : وہاں مَا يَشَآءُوْنَ : جو وہ چاہیں گے كَذٰلِكَ : ایسی ہی يَجْزِي : جزا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
دائمی (راحت و سرور کے) باغ جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، جو کچھ چاہیں گے وہاں ان کے لیے مہیا ہوجائے گا ، اس طرح اللہ متقیوں کو بدلہ دیتا ہے
تفسیر : متقی لوگوں کے لئے باغات ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے : 37۔ اس موجودہ دنیا میں بھی گو لذتیں اور مسرتیں ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو آخرت کی لذتوں اور مسرتوں کا کچھ نام ہمارے سامنے نہ آتا جب ہی ان لذتوں اور مسرتوں کا نام ہمارے سامنے لیا جاتا ہے کہ ہم ان سے ایک حد تک واقف ہیں ، مگر ایک چیز یہاں بالکل میسر نہیں وہ کیا ہے ؟ وہ بقائے دوام ہے ، یہاں کی ہر لذت عارضی اور ہر مسرت آنی ہے ، یہاں خوشی کا کوئی ایسا ترانہ نہیں جس کے بعد غم وماتم کا نالہ نہ ہو ‘ یہاں ہر پھول کے ساتھ کانٹے ‘ ہر روشنی کے ساتھ تاریکی ‘ ہر وجود کے ساتھ فنا ‘ ہر سیری کے بعد بھوک ‘ ہر سیربی کے بعد پیاس اور ہر غنا کے بعد محتاجی ہے ۔ انسان ہزاروں مشکلیں اٹھانے اور ہزاروں صدمات سہنے کے بعد ایک مسرت کا پیغام سنتا ہے اور خوشی کا منظر دیکھتا ہے مگر ابھی اس سے سیر ہونے کی بھی نبوت نہیں آتی کہ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، غرض اس موجودہ عالم فانی کی ہر شے آنی جانی ہے اور یہی یہاں کی سب سے بڑی کمی ہے ، لیکن جنت اس مملکت کا نام ہے جہاں کی لذتیں جاودانی اور جہاں کی مسرتیں غیر فانی ہیں ، جہاں حیات ہے مگر موت نہیں ‘ راحت ہے مگر تکلیف نہیں ‘ لذت ہے مگر الم نہیں ‘ مسرت ہے مگر غم نہیں ، جہاں وہ سکون ہے جس کو اضطراب نہیں اور وہ شادمانی ہے کہ اس کے بعد حزن وغم نہیں اور شیطان آدم کے سامنے جو جنت کا نقشہ کھینچتا تھا وہ بالکل صحیح تھا اس نے کہا تھا کہ (آیت) ” ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی “۔ (طہ : 20 : 120) ” کیا میں تجھے ہمیشہ جینے کا درخت اور وہ بادشاہی بتاؤں جس کو فنا نہیں۔ “ زیر نظر آیت میں بھی متقین کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغات کا ذکر ہے فرمایا ان کو جو باغات دیئے جائیں گے ان میں ان کا داخلہ عارضی طور پر نہیں ہوگا بلکہ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور ان کی خوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ وہاں جو کچھ چاہیں گے ان کو مل جائے گا اور ان کی کوئی بات ایسی نہیں ہوگی جو وہاں پوری نہ ہو سکے اور اس طرح کا اجر اللہ تعالیٰ اہل تقوی کو دیتا ہے ۔ (آیت) ” لھم فیھا مایشآء ؤن “۔ ایک بڑی گہری اور اصولی حقیقت ان دو مختصر لفظوں کے اندر آگئی ہے ، جنت میں جو ہوا بھی چلے گی وہ سب اہل جنت کی مرضی کے مطابق ہوگی اور جو کچھ بھی جس کسی کا جی چاہے گا سب پورا ہو کر رہے گا ‘ ہر تمنا نکل کر ‘ ہر آرزو حاصل ہو کر رہے گی ، دنیا کی زندگی کی طرح یہ نہیں ہوگا کہ ۔ بہت نکلے میرے آرماں مگر پھر بھی کم نکلے : لہذا وہاں کی ایک ایک نعمت اور اس کے جزئیات وتفصیلات کہاں تک بیان کئے جاسکتے ہیں بس ایک جامع جواب ہر مذاق اور ہر درجہ کے سائلین کے لئے کافی ہوگیا کہ ” وہاں تمہاری ہر خواہش پوری ہوگی “ لیکن خواہش کیا ہوگی ؟ وہاں چلیں گے تو پتہ چل جائے گا ، ہاں ! وہ جو کچھ بھی ہوگی خیر وہ برکت کی ہوگی کیونکہ وہ جگہ ہی خیر و برکت والوں کی ہے دوسروں کا وہاں گزر بھی نہیں ہوگا ۔
Top