Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 37
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اِنْ : اگر تَحْرِصْ : تم حرص کرو (للچاؤ) عَلٰي هُدٰىهُمْ : ان کی ہدایت کے لیے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ لَا يَهْدِيْ : ہدایت نہیں دیتا مَنْ : جسے يُّضِلُّ : وہ گمراہ کرتا ہے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
آپ ان لوگوں کے ہدایت پانے کے کتنے ہی خواہش مند ہوں لیکن اللہ اس آدمی پر راہ کبھی نہیں کھولتا جس پر راہ گم کردیتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کوئی مددگار بھی نہیں ہوتا
آپ ﷺ ان لوگوں کی ہدایت کے کتنے ہی حریص ہوں لیکن راہ ہدایت ان کو نہیں ملے گی : 44۔ فرمایا اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے تمہاری نبوت کی آزمائش کے لئے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کرکے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کردیا اب شاید تم متوقع ہوگئے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کرلینے میں کوئی تامل نہیں رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے مگر یقین جانو کہ یہ لوگ اب بھی نہیں مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لئے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننے چاہتے نہیں اس لئے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لئے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لئے کسی بہانے کی ہے ۔ اس کلام سے مقصود نبی کریم ﷺ کی کسی غلط فہمی کو رفع کرنا نہیں ہے اگرچہ بظاہر خطاب آپ ﷺ ہی سے ہے لیکن اس کا اصل مقصد مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جارہی تھی ایک نہایت لطیف وبلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ جو شخص خود ہدایت پانے کی کوشش نہ کرے بلکہ گمراہی کی طرف دوڑ دوڑ کر جائے اس کو کوئی نہیں جو ہدایت کی طرف پھیر کرلے آئے اور نہ ہی سنت اللہ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ لوگوں کو پیچھے لگ کر بزور ان کو ہدایت پر لا کھڑا کیا جائے جب کہ وہ خود ہدایت کی طرف نہ آنا چاہتے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی مدد ان لوگوں کا کبھی ساتھ نہیں دیتی جو خود راہ ہدایت سے بھاگ رہے ہوں ۔
Top