Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 38
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : سخت اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسم لَا يَبْعَثُ : نہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّمُوْتُ : جو مرجاتا ہے بَلٰى : کیوں نہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ان لوگوں نے اللہ کی سخت قسمیں کھائیں کہ جو مر گیا اسے اللہ کبھی دوبارہ نہیں اٹھائے گا ہاں ! ضرور اٹھائے گا یہ اس کا وعدہ ہے اور اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے لیکن اکثر آدمی ہیں جو اس بات کا علم نہیں رکھتے
یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ” دوبارہ اٹھائے جانے والی بات ممکن نہیں “ : 45۔ قیامت اپنے اندر کتنی ہی شان دار حقیقت رکھتی ہے لیکن اہل عرب کو توحید کے بعد جس عقیدہ سے شدت کے انکار تھا جس کے ماننے پر وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے تھے اور جو انکی عقل میں کسی طرح نہیں سماتا تھا وہ یہی قیامت اور حشر ونشر کا مسئلہ ہے جاہل عرب حیات بعد الموت خدا کے آگے اپنے اعمال کے مواخذہ اور پرسش اور سزا وجزا سے قطعا لا علم تھے اس لئے ان کو اعمال کے خیر وشر اور نیکی وبدی میں وہ تمیز نہ تھی جس پر اخلاق ومعاملات کا تمامتر دارومدار ہے ، عرب کا ایک شاعر نبی کریم ﷺ کی اس تعلیم کو سن کر تعجب سے کہتا ہے ۔ اموت ثم بعث ثم حشر حدیث خرافۃ یا ام عمر ” کیا موت ہے ‘ پھر جی اٹھنا ہے ‘ پھر اکٹھا ہونا ہے : اے ام عمر (شاعر کی بیوی کا نام) یہ سب خرافات باتیں ہی تو ہیں “۔ ایک دوسرا شاعر کہتا ہے کہ : یحدثنا النبی بان سخی وکیف حیاۃ اصداء وھام : ” یہ نبی ہم سے کہتا ہے کہ ہم پھر زندہ کئے جائیں گے حالانکہ صدی اور ہام ہو کر پھر زندگی کیسی ؟ “ (بخاری جلد اول باب الحجرہ ص 558) ان کا عقیدہ تھا کہ انسان مر کر پرندہ ہوجاتا ہے اور آواز دیتا پھرتا ہے ‘ اس کا نام ان کے ہاں ” صدی “ اور ” ہام “ تھا ، قرآن کریم نے ان کے یہ اقوال بکثرت نقل کئے ہیں ، مثلا ارشاد ہوتا ہے کہ : ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو یہ لوٹنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ “ (ق 50 : 3) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” انہوں نے کہا کہ یہی ہماری موجودہ زندگی ہے دوسری نہیں ‘ مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو مارتا ہے ۔ “ (الانعام : 6 : 29) ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” ان سڑی گلی ہڈیوں کو کون جلائے گا ؟ “ (یس 36 : 58) ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور انہوں نے کہا کہ یہی ہماری موجودہ زندگی ہے دوسری نہیں ، مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو مارتا ہے ۔ “ (الجاثیہ 45 : 24) مختصر یہ کہ ان کا عقیدہ یہی تھا کہ یہ دنیا اسی قائم رہے گی ‘ موت وحیات کا سلسلہ بھی اسی طرح برابر جاری رہے گا اور اس دنیاوی زندگی کے علاوہ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ خباب بن الارت ؓ نہایت قدیم مسلمانوں میں سے ہیں ، یہ لوہاری کا پیشہ کرتے تھے ان کے کچھ دام قریش کے ایک رئیس عاص بن وائل پر واجب الادا تھے وہ جب جا کر تقاضا کرتے تو عاص کہتا کہ جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہ کرو گے میں تم کو کچھ نہ دوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم مر کر پھر نہ جیو ‘ اس نے کہا کیا مجھے مر کر پھر جینا بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ‘ بلاشبہ تو اس نے مذاق کرتے ہوئے کہا تو اچھا پھر وہی میرا مال و دولت اور سروسامان بھی ہوگا ‘ وہی تم دام بھی لے لینا ، (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الکہف ص 691) اس سے اندازہ ہوگا کہ اس بارہ میں اہل عرب کا کفر کتنا شدید تھا اس لئے نبی اعظم وآخر ﷺ نے ان کے سامنے توحید الہی کے بعد جس عقیدہ کو سب سے زیادہ زور کے ساتھ پیش کیا وہ یہی تھا چناچہ قرآن کریم کی کل سورتوں میں سب سے زیادہ اس مضمون کو مختلف تعبیروں اور مؤثر طریقوں سے روز مرہ کے مشاہدات اور دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اس میں ہیبت الہی ‘ ہنگامہ قیامت اور حشر ونشر کے معاملات کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ سننے والا سرتا پا متاثر ہوجائے اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت اور کائنات کی حیرت انگیز خلقت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ سامع ہر قدم پر لرزہ براندام ہوجاتا ہے اور عذاب الہی کی تہدید کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچا ہے کہ نفس انسانی اپنے تاثر کو چھپانے پر قادر نہیں رہتا ۔ زیر نظر آیت میں بھی اس چیز کا ذکر ہے کہ وہ سخت قسمیں کھاتے ہیں جو شخص مرگیا وہ کبھی دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا ‘ ارشاد ہوا کہ کیوں نہیں ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور یقینا ایسا ہوگا ہاں یہ بات صحیح ہے کہ یہ بات اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اس لئے وہ اس کا انکار کردیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سمجھ میں نہ آنے والی بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک بار پھر غور کرلو کہ قرآن کریم کہتا ہے اے انسان ! تیری یہ زندگی صرف اتنی ہی نہیں ہے جتنی تو دنیا میں بسر کرتا ہے بلکہ اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور اس زندگی میں جزاء عمل کا معاملہ پیش آنے والا ہے ، تمام مذاہب عالم کا عالمگیر اعتقاد ہے لیکن مشرکین عرب اس سے بالکل بیخبر تھے اس لئے جب قرآن کریم نے آخرت کی زندگی اور حشر اجساد کا اعلان کیا تو انہیں بڑی ہی عجیب بات معلوم ہوئی وہ کہتے تھے جب آدمی مر گیا تو مر گیا پھر اس کے بعد زندگی کیسے ہو سکتی ہے ؟ چناچہ قرآن کریم نے جا بجا ان کے اقوال نقل کئے ہیں اور جواب دیا ہے یہاں بھی آیت 38 میں فرمایا لوگ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا ، لیکن نہیں جانتے کہ اللہ کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کا وعدہ ہے یعنی اس کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور ضروری ہے کہ ظہور میں آئے ، یہ اس کا وعدہ کیونکر ہے ؟ اس طرح کہ خود دنیوی زندگی کی ہر بات کہہ رہی ہے کہ اسے ایسا کرنا ہے اور وہ ضرور کرے گا چناچہ اس جگہ فرمایا (آیت) ” لیبین لھم الذی یختلفون فیہ ولیعلم الذین کفروا انھم کانوا کاذبین “۔ تاکہ جن حقیقتوں کو انسان دنیا میں ذکر کرتا ہے اور اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا فیصلہ ہوجائے اور حقیقت سب کے سامنے آجائے نیز اس لئے کہ گمراہ اور بدعمل اپنی گمراہی اور سرکشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گویا دنیوی زندگی میں پردوں کا نہ اٹھنا اور مشاہدہ حقیقت کا نہ ہونا بلا رہا ہے کہ کوئی اور زندگی ضرور ہے جہاں وہ اٹھیں گے پس یہ صورت حال گویا خالق ہستی کی طرف سے ایک وعدہ ہوئی کہ اب نہیں تو آئندہ ایسا ہونے والا ہے اور ضروری ہے کہ وہ وعدہ الہی پورا ہو کر رہے ۔
Top