Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اس نے آسمان و زمین کا یہ تمام کارخانہ تدبیر و مصلحت سے پیدا کیا ہے اس کی ذات اس بات سے بلند ہے جو یہ لوگ شرک کر رہے ہیں
آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا وہی ہے وہ ہر شرک سے بالاتر ہے : 4۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت اور ربوبیت کے ان دلائل کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جو اتنے واضح اور یقین آفرین ہیں کہ اگر کوئی معمولی سی بھی عقل وفہم رکھنے والا غور کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی توحید کا اسے اعتراف کرنا ہی پڑے گا ذرا غور تو کیجئے کہ زمین و آسمان کا یہ کارخانہ کتنا وسیع ہے اور کتنے ان گنت اور بیشمار پرزوں سے مرکب ہے اور ہر پرزہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنی اپنی جگہ پر اس خوبی سے فٹ ہے کہ نہ کوئی پیچ ڈھیلا ہوتا ہے نہ کوئی گراری ٹوٹتی ہے اور نہ ہی انجن کی رفتار میں فرق پڑتا ہے ۔ ہرچیز اپنا اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے ، جس کے ذمہ چلنا ہے وہ چل ہی رہی ہے نہ اپنی سمت بدلتی ہے نہ اپنے مقررہ راستہ سے بال برابر ادھر ادھر سرکتی ہے اور نہ اس کی چال میں فرق پڑتا ہے ، جس کے ذمے دوڑنا ہے وہ دوڑتی ہی چلی جارہی ہے جنہیں ٹھہرنے کا حکم ملا ہے وہ دم بخود چپ چاپ کھڑی ہیں انسان اس محیر العقول کارخانہ کی پیچیدگیوں میں غور کرے تو سر چکرا جاتا ہے اور اگر حقیقت شناس نگاہ سے یہ منظر دیکھے کہ ہرچیز ایک حلقہ بگوش غلام کی طرح تعمیل حکم میں مصروف ہے تو بےساختہ اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ (آیت) ” تبارک اللہ احسن الخالقین “۔ کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی ‘ بنانے والوں میں سب سے زیادہ حسن و خوبی کے ساتھ بنانے والی ۔ ہم زندگی کی بناوٹی اور خود ساختہ آسائشوں میں اس درجہ منہمک ہوگئے ہیں کہ ہمیں قدرتی راحتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور بسا اوقات تو ہم ان کی قدرت و قیمت کے اعتراف سے بھی انکار کردیتے ہیں لیکن اگر چند لمحوں کے لئے اپنے آپ کو اس غفلت سے بیدار کرلیں تو معلوم ہوجائے کہ کائنات ہستی کا حسن و جمال فطرت کی ایک عظیم اور بےپایاں بخشش ہے اور اگر یہ نہ ہوتی یا ہم میں اس کا احساس نہ ہوتا تو زندگی زندگی نہ ہوتی ، نہیں معلوم کیا چیز ہوجاتی ؟ ممکن ہے کہ موت کی بدحالیوں کا ایک تسلسل ہوتا ، ایک لمحہ کے لئے تصور کرو ، کہ دنیا موجود ہے مگر حسن و زیبائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے آسمان ہے مگر فضاء کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے ستارے ہیں مگر ان کی درخشندگی وجہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی نہیں ہے ۔ درخت ہیں مگر بغیر سبزی کے پھول ہیں مگر بغیر رنگ وبو کے ‘ اشیاء کا اعتدال ‘ اجسام کا تناسب ‘ صداؤں کا ترنم ‘ روشنی ورنگت کی بوقلمونی ان میں سے کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی یا یوں کہا جائے کہ ہم میں ان کا احساس نہیں ہے ، غور کرو کہ ایک ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کیسا بھیانک اور ہولناک منظر پیش کرتا ہے ایسی زندگی جس میں نہ تو حسن کا احساس ہو اور نہ ہی حسن کی جلوہ آرائی ‘ نہ نگاہ کے لئے سرور ہو ‘ نہ سامع کے لئے حلاوت ‘ نہ جذبات کی رقت ہو نہ محسوسات کی لطافت یقینا عذاب جانکاہی کی ایک ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتا ، لیکن جس قدرت نے ہمیں زندگی دی اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت یعنی حسن و زیبائی کی بخشش سے بھی مالا مال کر دے ۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا دوسرے ہاتھ سے تمام دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا ہے ۔ اس نے آسمان و زمین بنائے تو ان کو اپنی اپنی جگہ حسن وزیبائش بھی بخشا پھر اس کی اس بخشائش کی ان لوگوں نے کیا قدر کی جنہوں نے اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا شروع کردیئے حالانکہ وہ ہر طرح کے شرک سے پاک ومنزہ ہے ۔
Top