Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
اس نے انسان کو نطفہ (ایک قطرہ منی) سے پیدا کیا ، پھر وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا ہو گیا
اس نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا اور یہ پیدائش انسان اول کے بعد ہوئی : 5۔ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل سے انسان کو پیدا کیا اور اس کے بعد خود ہی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں ۔ ایک کمال تو یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کرکے ایک تخلیقی حکم سے اس میں وہ زندگی اور وہ شعور وتعقل پیدا کردیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت مخلوق وجود میں آگئی اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لئے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کار گزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کی تشریح اس سے پہلے سورة آل عمران کی آیت 56 جلد دوم اور سورة الانفال آیت 95 اور سورة الاعراف آیت 11 ‘ سورة الحجر آیت 26 ‘ 27 میں گزر چکی ہے اور سورة الحج میں ارشاد فرمایا گیا کہ : ” لوگو ! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے ‘ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے ‘ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں ہم جس کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے “۔ (الحج 22 : 5) مطلب یہ ہے کہ انسان پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہوجائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو ونما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے ، کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو صرف فطرت چلا رہی ہے لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے ، آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں بھی انسان تخم موجود نہیں ہوتا ‘ نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال ‘ کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں ، ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں جتنا مواد خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضہ انشی سے مل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر یہ کس حکیم وقدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بیشمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضہ انشی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیئے کے ملنے سے جو چیز ابتداء بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جا سیتص ۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بیشمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کررہا ہے ، وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے کون کے لوتھڑے یا گوشت کی بوٹی یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کردینا ہے وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ ، کس کو معمولی انسان کی صورت وہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے ، کس کو صحیح وسالم نکالنا ہے اور کسے اندھا ‘ بہرا گونگا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے ، کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بدصورت ۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت ۔ کس کو اعلی درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کو دن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے ، یہ تخلیق وتشکیل کا عمل جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک اللہ کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی ‘ بلکہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے ؟ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فیصدی فیصلے انہیں مراحل میں ہوجاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں قوموں کے بلکہ پوری نوع انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہوجانا ہے ‘ کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کار فرمائی کس عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں قوموں اور ملکوں کی قسمت کے فیصلے بھی کر رہا ہے ، یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ” حق “ ہے یا نہیں حالانکہ صرف اللہ ہی ” حق “ ہے تو بلاشبہ وہ عقل کا ۔ دیکھو وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا وجود ہوگیا : 6۔ غور کرو کہ انسان شے کیا ہے ؟ اور اس نے اپنے رب کی ذات وصفات کے باب میں کیسے کیسے مناقشے برپا کردیئے ہیں اور وہ اپنی اصل کی طرف کبھی بھی نہیں دھیان دیتا کہ حقیقتا اس کی اصل مادی اور کتنی پست و حقیر چیز ہے گویا یہ حضرت انسان جس کے حسن و کمال کے سامنے چاند اور پھول نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں جس کی ہئیت سے جنگل کے شیر لرزہ براندام ہیں جس کی تسخیری قوتیں اب ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اس کا اصل کیا ہے ؟ کیسے ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ پانی کی ایک ناپاک بوند اور پھر وہ بھی کہاں سے جا ٹپکی اور کس حال میں ٹپکی اور اب غور کرو کہ یہ رعنائی ودلبری ‘ یہ زور وتنومندی ‘ یہ قلب اور یہ دماغ کیا اس ایک قطرہ میں سموئے ہوئے تھے ۔ جس ہستی نے ان حیرت انگیز گوناگوں صلاحیتوں کو یوں سمیٹا اور پھر جس طرح ان کو پھیلایا اور ان کی نشو ونما کی اس کے آستانہ عظمت پر سر نہ جھکایا جائے تو کہاں جھکایا جائے ؟ لیکن یہ انسان نہ تو اپنے اصل پر غور کرتا ہے اور نہ ہی اس مربی کریم کے لطف وکرم کا اعتراف کرتا ہے بلکہ اس سے اور اس کے فرستادوں سے بات بات پر الجھتا ہے اور جھگڑتا ہے ایک دن ابی بن خلف ایک بوسیدہ ہڈی لے کر بارگار رسالت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ ﷺ اس ہڈی کے متعلق ہمیں کہتے ہیں کہ اسے پھر زندہ کیا جائے گا ‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ بس وہ جھگڑا ہے جس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے گویا جب اس ضعیف الخلقت انسان کو طاقت اور قوت گویائی عطا ہوئی تو خدا ہی کی ذات وصفات میں جھگڑے نکالنے لگا۔
Top