Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کوئی چیز پیدا کردیں تو اس کے سوا ہمیں اور کچھ نہیں کہنا ہوتا کہ ” ہوجا “ اور بس وہ ہوجاتی ہے
جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو حکم دیتے ہیں اور وہ ہوجاتا ہے : 47۔ لوگوں کو اس قیامت کے متعلق یقین کیوں نہیں آتا ؟ اس لئے کہ ان کے نزدیک ایسا ہونا ناممکن ہے انہیں بتایا گیا ہے کہ قیامت برپا کرنے والا ان جیسا کوئی نہیں ہے جس کا علم بھی ادھورا ہو اور قدرت بھی ناقص ہو بلکہ قیامت کا وقوع اس خداوند ذوالجلال کے حکم سے ہوگا جو ہرچیز پر قادر ہے یعنی اس نے ہرچیز کے لئے ایک بندھن باندھ دیا ہے اور اس کے مطابق کام ہو رہا ہے وہ قانون کیا ہے فرمایا وہ کلمہ ” کن “ ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ وہ ہو تو وہ ہوجاتی ہے گویا اس کے علم میں جس چیز کا ہونا طے ہے وہ ممکن نہیں کہ نہ ہو یقینا وہ ہو کر رہتی ہے اور یہی ارادہ ہی اس کا کلمہ کن ہے ، ہاں ! یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ ذات ایسی ” لائی لگ “ نہیں کہ ایک دوسرے کے متضاد حکم صادر کرتی ہو اور جس طرف کوئی اس کو پھیرنا چاہے وہ خود بخود ساتھ پھرتی جاتی ہو ، اس کے پاس اصول اٹل اور امٹ ہیں جو کسی کے ٹالے نہ ٹلتے اور کسی کے مٹانے سے نہ مٹتے ہیں ، یہ بات اس لئے عرض کرنا پڑی کہ لوگوں نے اس آیت کو ایک مذاق بنا رکھا ہے کہ خود بےاصولیاں اور ناسمجھی کی باتیں کرتے ہیں اور پھر جب عقل جواب دے جاتی ہے اور اپنے کئے کی تفہیم کرانا ان سے ممکن نہیں رہتی تو وہ فورا یہ آیت تلاوت کرتے ہیں کہ دیکھو اللہ قادر ہے اس کے کلمہ کن سے سب کچھ ہوتا ہے پھر وہاں کسی اصول کی بات آخر کیوں ؟ کیا خدا بھی کسی اصول کا پابند ہو سکتا ہے یا اس کا بھی کوئی اصول ہے ؟ ان بےاصولوں اور جاہلوں نے خدا کو ایک بےاصول اور اندھی طاقت سمجھ رکھا ہے یا ایسا بادشاہوں کا بادشاہ جس کے نزدیک قانون کوئی چیز نہ ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ تو بےاصولا ہو سکتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا گمان ہے اور نہ ہی کوئی اندھی طاقت کا نام ہے ہاں ! اس کے کلمہ کن ہی سے سارے عالم کا نظام قائم ہے اور اسی طرح قائم ہے کہ اس میں کبھی ردوبدل کی ضرورت نہ پیش آتی ہے اور نہ ہی کبھی آئے گی اور اس کے کلمہ کن کے سوا کوئی پتہ نہیں جو درخت سے گر سکے یا درخت پر اگ آئے اور سارے کام اس کے ارادہ سے ہو رہے ہیں اور باقاعدہ ایک نظم کے تحت ہو رہے ہیں جو کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوتے نہ ہی کوئی اس کا امکان ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت کے اظہار کی سب سے بڑی اور سب سے اہم نشانی ہے ۔
Top