Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں پر ظلم ہوا اور ظلم سہنے کے بعد انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا بدلہ تو کہیں بڑھ کر ہے اگر یہ لوگ جان لیتے
جن لوگوں نے ظلم کو برداشت کیا اور ہجرت کی اللہ ان کو ٹھکانا دے گا یہ اس کا وعدہ ہے : 48۔ گزشتہ آیت میں جس ارادہ کا ذکر کیا تھا زیر نظر آیت میں اس ارادہ کے پورا کرنے کی ایک حتمی بات بتا دی اور اس کا قبل از وقت اعلان کردیا تاکہ دنیا کے سارے لوگ مل کر کوشش کرلیں کہ اس کے ارادہ کو کوئی ٹال سکتا ہے تو ٹال کر دیکھ لے اور اپنا زور آزما لے شاید اس طرح ہی اس کو یقین آجائے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ارادہ اپنے کسی اصول کے خلاف نہیں جس کا اس نے پہلے ہی سے اعلان کردیا ہو ، فرمایا سن رکھو ہمارا قانون یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہم پر ایمان لانے کے جرم کی پاداش میں قوم کے ظلم وستم کا نشانہ بنے یہاں تک کہ انہیں ان کے گھروں سے بھی نکال دیا گیا ہم ان کی اس قربانی اور ایثار کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے بلکہ اس دنیا میں بھی ان کو بہترین رہائش گاہ ملے گی اور اس کے علاوہ دارآخرت میں بھی ان کی جو عزت افزائیاں اور پذیرائیاں ہوں گی ان کو تو یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، یہ گزشتہ کلمہ کن کی تشریح فرماتے ہوئے قبل از وقت اعلان فرما دیا پھر ذرا غور کرو کہ مکہ والوں نے اپنی مشاورتی کمیٹی میں اکثریت رائے سے نہیں بلکہ اتفاق رائے سے یہ طے کیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اب زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا ، اعلان الہی یہ تھا کہ جو شخص ہجرت کا ارادہ کرلے ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اس طرح مکہ والوں کی اتفاق رائے سے پاس ہونے والی بات اعلان الہی کے متصادم ہوگئی اور اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ اللہ نے ہجرت کا ارادہ کرنے والے محمد رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ جیسی پاک بستی کی طرف نکل جانے کا حکم دیا کہ وہ بستی آپ کا مسکن ہوگی اور وہی ہوا کہ اللہ نے مکہ سے ہزاروں درجہ بہتر دنیا کے اندر ہی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو ٹھکانا دیا اور پھر فتح ونصرت آپ ﷺ پر سایہ فگن ہوگئی اور کچھ زیادہ دیر نہ لگی تھی کہ وہی ظالم مغلوب ومقہور ہو کر آپ ﷺ کے سامنے پیش کردیئے گئے اور مدینہ طیبہ میں اللہ نے رزق کی وہ فراوانی عطا فرمائی کہ چند ہی سال گزرے تھے کہ رزق وہاں وافر ہوگیا یہ دنیاکا حال تھا جو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آج ہمارے کانوں نے بھی اس کو سنا اور اپنے تو اپنے غیروں نے بھی اس کا اعتراف کیا اور آخرت کے وعدے بھی انشاء اللہ العزیز اسی طرح پورے ہوں گے کیونکہ یہ اعلان الہی کی دوسری شق ہے کہ ارشاد ہوا (آیت) ” والاجرالاخرۃ اکبر “۔ کہ آخرت کا اجر تو بہت ہی بڑا ہے ‘ کاش کہ علمائے اسلام بھی اس بات کو سمجھیں اور عوام کو یاد کرائیں کہ اللہ کا وعدہ آج تک کبھی غلط نہیں ہوا اور نہ ہی اس کوئی امکان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا اتنا پابند ہے کہ وہ کبھی ان کے خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی خلاف ہونے دیتا ہے اور یہی نشانی ہے اس کے طاقتور ہونے کی کہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقت وقوت کا مالک نہیں ہے۔
Top