Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 42
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْا : انہوں نے صبر کیا وَ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
یہ لوگ ہیں جو ثابت قدم رہے اور جو اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں
جو لوگ ثابت قدم رہے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں : 49۔ صبر کی حقیقت پر عوام کی غلط فہمی نے تو بر تو پردے ڈال رکھے ہیں وہ ان کے نزدیک بےبس وبے کسی کی ایک تصویر ہے اور اس کے معنی اپنے دشمن سے کسی مجبور کے سبب سے انتقام نہ لے سکنا کے بتاتے ہیں ‘ لیکن کیا واقعہ یہی ہے ؟ ” صبر “ کے لغوی معنی روکنے اور سہارنے کے ہیں یعنی اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ ثابت قدم رکھنا اور یہی صبر کے معنی میں حقیقت بھی ہے یعنی اس کے معنی بےاختیاری کی خاموشی اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبور کے نہیں بلکہ پامردی ‘ دل کی مضبوطی ‘ اخلاقی جرات اور ثابت قدمی کے ہیں ، غور کرو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کے قصہ میں ایک ہی آیت میں تین جگہ یہ لفظ آیا ہے اور ہر جگہ یہی معنی مراد ہیں ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ ” تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے “۔ ” کیسے اس بات پر صبر کرسکتے ہو جس کا علم تمہیں نہیں ہے “ ” اگر اللہ نے چاہا تو مجھے صابر پائیں گے ۔ “ ظاہر ہے کہ اس صبر سے مقصود لاعلمی کی حالت میں غیر معمولی واقعات کے پیش آنے سے دل میں اضطراب اور بےچینی کا پیدا نہ ہونا ہے ۔ قرآن کریم میں صبر کا لفظ اس ایک معنی میں مستعمل ہوا ہے گو حالات کے تغیر سے اس کے مفہوم میں کہیں کہیں ذرا ذرا فرق پیدا ہوگیا ہے بایں ہمہ ان سب کو مرجع ایک ہی ہے یعنی ثابت قدمی اور استقامت ، صبر کے یہ مختلف مفہوم جن میں قرآن کریم نے اس کو استعمال کیا ہے درج ذیل ہیں : 1۔ ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر اور اپنے مقصد پر جمے رہ کر کامیابی کے وقت کا انتظار کرنا ۔ 2۔ مصیبتوں اور مشکلوں میں اضطراب اور بےقراری نہ ہو بلکہ ان کو اللہ کا حکم اور مصلحت سمجھ کر خوشی خوشی جھیلا جائے ۔ 3۔ منزل مقصود کی راہ میں جو مشکلیں اور خطرے پیش آئیں ‘ دشمن جو تکلیفیں پہنچائیں اور مخالفین جو طعن وطنز کریں ‘ ان میں کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا جائے اور ان سے بددل اور پست ہمت ہونے کی بجائے اور زیادہ استقلال اور استواری پیدا ہو ۔ 4۔ برائی کرنے والوں کی برائی کو نظر انداز اور جو بدخواہی سے پیش آئے اور تکلیفیں دے اس کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی تحمل اور برداشت میں اخلاقی پامردی دکھائی جائے ۔ 5۔ لڑائی پیش آجانے کی صورت میں میدان جنگ میں بہادرانہ استقامت اور ثابت قدمی دکھائی جائے ۔ زیر نظر آیت میں فرمایا کہ ” وہ لوگ جو ہر طرح کی مصیبتوں میں ثابت قدم رہے اور جو اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اپنا کام پورے دھیان سے کرتے ہیں حالات خواہ کچھ ہوں ، اس جگہ اس کی تلقین کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مخالفت جب حد سے بڑھ گئی اور مخالفین کی ایذاؤں اور تکلیفوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا گیا تو مسلمانوں پر زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو پیغمبر اسلام نے اجازت دے دی کہ حبش یعنی ابی سینا کی طرف ہجرت کر جائیں چناچہ پہلے بارہ مرد اور چار عورتوں کا قافلہ مکہ سے نکلا جس کے رئیس حضرت عثمان بن عفان ؓ تھے اس کے بعد اور لوگ نکلے جن کی تعداد 73 مردوں اور 18 عورتوں تک پہنچ گئی ، تاریخ اسلام کی یہ پہلی ہجرت ہے اور دوسری ہجرت یثرب کی ہجرت تھی آیت 41 ‘ 42 میں جن مہاجرین کا ذکر کیا ہے اس سے مقصود ابی سینا کے مہاجرین ہیں ، فرمایا انہوں نے اللہ کی سچائی کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا ہے اور ہجرت کی مصیبتیں برداشت کی ہیں تو ضروری ہے کہ اللہ ان کا مددگار ہو اور ان کے لئے دنیا میں ایک اچھا ٹھکانا پیدا کر دے ، چناچہ دنیا میں ان کا پہلا ٹھکانہ ابی سینا اور دوسرا اور آخری ٹھکانہ ان مہاجرین کا مدینہ قرار پایا جس کی طرف آپ (علیہ السلام) نے بھی ہجرت کی :
Top