Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 47
اَوْ یَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ١ؕ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اَوْ : یا يَاْخُذَهُمْ : انہیں پکڑ لے وہ عَلٰي : پر (بعد) تَخَوُّفٍ : ڈرانا فَاِنَّ : پس بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت رحم کرنے والا
یا انہیں ڈرا دے پھر پکڑے کیونکہ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت والا بڑا ہی رحمت والا ہے
ممکن ہے کہ ان کو ڈرتے وقت ہی پکڑ لیا جائے کیونکہ بچے رہنا اس کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے : 54۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں گھٹاتے گھٹاتے پکڑ لے اور اگر وہ مہلت پر مہلت دیئے جا رہے ہیں تو یہ تو اس کی سراسر شفقت ورحمت ہی کا نتیجہ ہے (تخوف) خوف سے ہے اور خوف کے معنی ڈر کے بھی ہیں اور تنقص کم ہونے بھی اور دونوں معنوں میں اس (تخوف) کا لفظ صحیح ہے یعیک ممکن ہے کہ پہلے عذاب کی نشانیاں نمودار ہوں جس سے وہ خوفزدہ ہوجائیں اور پھر ان پر عذاب اترے جو ان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں پہلے کاروبار میں نقصان ہو اور کھیتی باڑی سے برکت اٹھ جائے اور سب کچھ ہونے کے باوجود ان کی غیر یقینی کی حالت بڑھتی ہی چلی جائے یا پدھاوار فی الواقع گھٹنی شروع ہوجائے اور پھر صحت بھی بگڑنے لگے اور اس طرح ان کے تندرست و توانا اجسام گھل گھل کر لاغر ونحیف ہوجائیں اور اس طرح جب ان کی زندگی معیشت کا تنا کھوکھلا ہوجائے تو اچانک عذاب الہی کا طوفان ان کو اپنے گھیرے میں لے لے اور ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ ” تخو فناھم “ کے معنی ہیں ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے یعنی تدریجا کم کیا جب کہ اقتضائے خوف ہو اور ان تین آیتوں میں عذاب کے تین رنگ یا تین صورتیں بیان کی گئیں ہیں ایک ان پر ذلت وارد کرنا ‘ دوسرے یہ کہ ان کے آنے جانے یا سفروں میں ان کو پکڑ لینا تیسرے یہ کہ تدریجا ان کو کم کرتا چلے جانا اور پھر اچانک ان کو پکڑ لینا اور مکہ والوں پر یہ تین ہی قسم کے عذاب نازل ہونے شروع ہوئے جبکہ انہوں نے عذاب الہی کو روکنے والوں کو وہاں سے نکال دیا یعنی نبی اعظم وآخر ﷺ کی ہجرت کے بعد نازل ہونا شروع ہوا اور انجام کار وہ قحط سالی میں پکڑ لئے گئے ۔
Top