Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 49
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : سے دَآبَّةٍ : جاندار وَّالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَهُمْ : اور وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
اور (تم لوگ اچھی طرح غور و فکر کر کے دیکھو) آسمانوں میں جتنی چیزیں ہیں اور زمین میں جتنے جانور ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں ، نیز فرشتے اور وہ جانور سرکشی نہیں کرتے
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب رب کریم کے آگے سربسجود ہے : 57۔ اس آیت نے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ قرآن کریم کے نزدیک اتباع حق کی حقیقت کیا ہے ؟ فرمایا کائنات ہستی میں جس قدر مخلوق ہے سب اللہ کے احکام وقوانین کے آگے جھکی ہوئی ہے ، اجرام سماویہ سے لے کر درختوں اور پتھروں تک کوئی چیز نہیں جس کے لئے اس نے احکام وقوانین نہ ٹھہرا دیئے ہوں اور ان کے مطابق ان کی ہستی کا کارخانہ نہ چل رہا ہو پھر اگر یہاں درخت کے ایک پتہ اور پہاڑ کی ایک چٹان کے لئے بھی کسی کے ٹھہرائے ہوئے احکام ہیں تو کیا انسان کے لئے نہیں ہوں گے جو کرہ ارض کے تمام سلسلہ خلقت کا ماحصل اور تمام کارخانہ تخلیق وتکمیل کا آفرین مظہر ہے ؟ اور اگر سب کی ہستی وبقا اس پر موقوف ہوئی کہ احکام حق کے آگے سربسجود ہیں تو کیا انسان کی ہستی وسعادت کے لئے ایسا ہونا ضروری نہیں ؟ اس آیت کے اسلوب بیان پر غور کرو کہ انسان کو مخلوقات ہستی کی عام صف سے الگ کھڑا نہیں کیا بلکہ ایک ہی سلسلہ میں سب کا ذکر کیا ‘ اس جگہ فرمایا ہے کہ (آیت) ” وللہ یسجد ما فی السموت وما فی الارض من دآبۃ “۔ آسمانوں میں جتنی چیزیں ہیں اور زمین میں جتنے جانور ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ “ اور دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ (آیت) ” الم تران اللہ یسجدلہ من فی السموات ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدوآب وکثیر من الناس “۔ (الحج 22 : 18) ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کوئی بھی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی بھی زمین میں ہے نیز سورج ‘ چاند ‘ ستارے پہاڑ ‘ درخت اور چارپائے سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں اور کتنے ہی انسان بھی ؟ “ اور ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” وللہ یسجد من فی السموت والارض طوعا وکرھا وظللھم بالغدو والاصال “۔ (الرعد 13 : 15) ” اور آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے خوشی سے ہو یا مجبوری سے اور دیکھو ان کے سایے صبح وشام (کس طرح گھٹتے بڑھتے ہیں) “ اور زیر نظر آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ” اور فرشتے کہ وہ کبھی بھی سرکشی نہیں کرتے ۔ “ گویا اس پر بتا دیا کہ ملک یعنی فرشتہ اس طاقت وقوت کا نام ہے جس میں فرمانبرداری ہی فرمانبرداری ہے ، سرکشی کا اس میں نام ونشان تک نہیں کیونکہ صاحب ارادہ تو وہ ہے نہیں اور نہ ہی وہ مکلف ہے لہذا اس قوت کا نام ہے جو فرمانبرداری اور حکم کے بجا لانے میں ممدومعاون ہوتی ہے اور سرکشی نام کی کوئی شے اس میں نہیں ہے اور پھر مزید وضاحت آنے والی آیت میں بھی کردی گئی ۔
Top