Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 60
لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ١ۚ وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
لِلَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر مَثَلُ : حال السَّوْءِ : برا وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْمَثَلُ الْاَعْلٰى : شان بلند وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لیے یہی ہے کہ برا تصور کریں حالانکہ اللہ کیلئے تو بلند ترین تصور ہے ، وہ سب پر غالب ، حکمت والا ہے
آخرت پر یقین نہ رکھنے والے اسی طرح الٹی سیدھی باتیں بناتیں بناتے ہیں : 68۔ جن لوگوں کا آخرت پر یقین نہیں ہوتا تو وہ اسی طرح کی من گھڑت باتیں کرتے آئے ہیں ‘ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ دراصل ان کے پاس کوئی مستقل اور ٹھوس نظریہ تو موجود نہیں اس لئے جو ان کے منہ در آتا ہے کہہ دیتے ہیں ۔ اللہ کے لئے اولاد قرار دینا اور پھر وہ بھی لڑکیاں کیوں ؟ اس لئے کہ فرشتوں میں کوئی توالد وتناسل تو ہے نہیں کہ وہ انسانوں کی طرح پیدا ہوتے اور مرتے ہوں اور ساری قومیں آج تک ان طاقتوں اور قوتوں کو مانتی آئی ہیں اور وہ اتنے قرار دیتے ہو تو وہ فورا بول اٹھیں گے کہ اچھا وہ اللہ کی لڑکیاں نہیں تو پھر کیا ہیں ؟ مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم فرشتوں کو مانتے ہو لیکن نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا ہیں ؟ اسی طرح ہم بھی فرشتوں کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی لڑکیاں ہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد ایسے ہی کہتے آئے ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اولاد سے پاک ہے خواہ وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے اس لئے کہ فانی اجسام کو اپنی نسل واولاد کی ضرورت ہوتی ہے اللہ کو جب فنا ہی نہیں تو اس کو اولاد کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ اور اللہ کے لئے ان بری مثالوں کی ضرورت کیا ہے ؟ حالانکہ وہ تو اعلی اور بلند صفات کا مالک ہے اور جو کچھ اس کائنات میں ہے سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے وہ سب پر غالب اور حکیم کل ہے ۔ یہ توالد وتناسل کا سلسلہ جہاں بھی ہے اس کی علت یہ ہے کہ افراد فانی ہوتے ہیں اور ان کی جنس باقی رہنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے ان سے اولاد پیدا ہو جس سے ان کی نسل آگے چلے ۔ پس اللہ کے لئے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتداء اور انتہا ہو کیونکہ توالد وتناسل پر جن اجناس کی بقا کا انحصار ہے انکے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی۔ پھر اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور پھر کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر ایک خاص مقام پر بچے کی شکل اختیار کرے ، پس اللہ کی اولاد فرض کرنے سے لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ وہ ایک مادی اور جسمانی وجود ہو اور اس کی ہم جنس کوئی اس کی بیوی ہو اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والا جسم اس کی اولاد کہلائے ، اس لئے ضروری ہوا کہ جو لوگ اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں وہ اللہ کی بیوی کی بھی نشاندہی کریں کہ وہ کون ہے ؟ جب کہ یہ بھی لازم ہے کہ ہر جوڑا ایک دوسرے کی جنس میں سے ممکن ہے یا کم از کم قریب الجنس ہونا ضروری ہے ۔ جن کے ہاں حقیقی اولاد نہیں ہوتی ان کو متبنی بنانے کی ضرورت محض اس لئے پیش آتی ہے کہ ایک لاولد شخص اپنی زندگی میں کسی مددگار کا اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے لئے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اس ذات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہیں جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں ۔ اور اس مضمون کی پوری وضاحت پیچھے سورة النساء 4 : 171 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں اور سورة الانعام کی آیت 100 ‘ 101 میں بھی اس کی تفصیل کی گئی ہے اور پھر سورة یونس کی آیت 68 میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں ۔ افسوس کہ اس آیت کا مطلب اکثر لوگوں نے نہیں سمجھا اس میں جو کچھ بیان کیا گیا اس کی تفصیل آگے اسی سورت کی آیت 74 میں آرہی ہے ، قرآن کریم اس سے نہیں روکتا کہ انسان خدا کے تصور کے لئے ایک بات دھیان میں لائے وہ کہتا ہے کہ وہ بات کیسی ہونی چاہئے ؟ انسان نے ہمیشہ اس جگہ ٹھوکر کھائی وہ اسے نہیں پاسکا ، وہ حسن و جمال کبریائی و کمال اور علو و عظمت کی بات تھی لیکن اس نے گمراہی فکر سے بری باتیں گری ہوئی باتیں ، ناروا باتیں گھڑ لیں یعنی ” مثل السوء “ سے کام لیا المثل الاعلی نہ پاسکا حالانکہ اللہ کے لئے جو بات ہوگی ” المثل الاعلی “ ہی ہوگی ” مثل السوء “ کی نہیں ہو سکتی اور ” مثل السوء “ کی صورت ہے جس کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں نے اللہ کی اولاد تسلیم کی خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا جیسا کہ بعض نے فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں قرار دیا اور بعض نے اللہ کے لئے اولاد ہی کے طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) کو تسلیم کیا کہ وہ اللہ کے بیٹے تھے ۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ (آیت) ” المثل الاعلی “۔ کا جمال حقیقت نمایاں کردیا جہاں اس نے یہ ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” وللہ الاسمآء الحسنی فادعوہ بھا وذروالذین یلحدون فی اسمآئہ سیجزون ما کانوا یعملون “۔ (الاعراف 7 : 18) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” لہ الاسمآء الحسنی یسبح لہ ما فی السموت والارض وھو العزیز الحکیم “۔ (الحشر 59 : 24) ” اس کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور آسمانوں میں اور زمین کی جتنی مخلوقات ہیں سب اس کی تسبیح کر رہی ہیں یعنی تمام کائنات ہستی ان صفتوں کی شہادت دے رہی ہے آسمان و زمین کی ہرچیز ان صفتوں کا اعتراف ہے ان صفتوں کی نمود ہے اس کی پاکیزگی وکبریائی کے اعلان تسبیح کی زبان ہے تقدیس کی پکار ہے ، گویا اس جگہ (آیت) ” مثل الاعلی “ سے مراد بھی وہی صفات ہیں وہ مثال نہیں جس سے اس سورت کی آیت 74 میں (آیت) ” فلا تضربوا للہ الامثال “ کہہ کر روکا گیا ہے کہ اللہ کے لئے مثالیں مت گھڑو اس لئے دونوں آیتوں میں کوئی تناقض نہیں ہے بلکہ پوری وضاحت موجود ہے ۔ تفصیل حاشیہ 85 میں دیکھیں ۔
Top