Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 64
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ۙ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَنْزَلْنَا : اتاری ہم نے عَلَيْكَ : تم پر الْكِتٰبَ : کتاب اِلَّا : مگر لِتُبَيِّنَ : اس لیے کہ تم واضح کردو لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِي : جو۔ جس اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
اور ہم نے تجھ پر { الکتب } نہیں اتاری ہے مگر اس لیے کہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کی حقیقت ان پر واضح کردے اور ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور رحمت
ان چیزوں کی اچھائی ‘ برائی سمجھانے کے لئے تو ہم نے آپ پر ” ال کتاب “ نازل کی ہے : 74۔ (الکتاب) سے مراد کیا ہے ؟ ” ال کتاب “ سے مراد قرآن کریم ہے اور قرآن کریم کے سوا کسی اور صحیفہ نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ مکمل ہے اور اس کے ذریعہ سے دین الہی اپنے تمام اصول و فروع ‘ مناسک ومناہج اور شرائع کے لحاظ سے تکمیل کو پہنچ گیا ہے بلکہ گزشتہ مذاہب میں سے ہر ایک نے اپنے وقت میں یہی کہا ہے کہ اس کے بعد ایک اور نبوت آئے گی جو اس کے کام کی تکمیل کرے گی جب کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : ” میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا ۔ “ (استثناء 18 : 19) اس سے معلوم ہوگیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کی مانند ایک اور نبی آنے والا تھا جس کے منہ میں اللہ تعالیٰ خود اپنا کلام ڈالے گا اس سے ثابت ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ایک اور صاحب شریعت نبی اللہ کے نئے کلام کے ساتھ آئے گا اور یہی بات عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کہی ” لیکن وہ فارقلیط (احمد) پاکیزگی کی روح ہے جسے باپ (خدا) میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہی ہیں تمہیں یاد دلائے گا ۔ “ (یوحنا 14 : 36) ” اور وہ فارقلیط (احمد) آکر دنیا کو دنیا کو گناہ سے راستی اور عدالت سے قصور وار ٹھہرائے گا گناہ اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے ۔ میری اور بھی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں پر اب تم ان کو برداشت نہیں کہ سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گی تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گا اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا اور کہے گا میری بزرگی کرے گا ۔ “ (یوحنا 16 : 8 تا 13) عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے کلام کو ہنوز ناتمام ہی فرمایا اور ایک آئندہ آنے والے کا پتہ دیا جو اس کی تکمیل کرے گا اور آخر وہ نبی مکرم ﷺ آیا اور دعوی کی کہ میں موسیٰ کی مانند بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمعیل میں آیا ہوں اور میرے منہ میں خدا نے اپنی بولی ڈالی ہے اور یہ دعوی کیا کہ میں ہی وہ سچائی کی روح ہوں جو مسیح کی اصل بڑائی ظاہر کرنے ‘ سچائی کی راہ بتانے اور مسیح کی ادھوری بات کو کامل کرنے کے لئے ہوں ۔ میں اپنی نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو اوپر سے سنتا ہوں اور آخر زمانہ نبوت کے ختم پر وحی الہی نے اس کی زبان سے یہ اعلان عام کیا کہ ” آج میں نے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کا دین پسند کیا ۔ “ (المائدہ : 5 : 2) تورات واناجیل کے ان حوالوں پر اچھی طرح غور کرو کہ وہ آنے والا رسول ونبی جس کی پیش گوئی کی گئی تھی وہ کون تھا ؟ ظاہر ہے کہ اس سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہی تھے اور وہی احمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور یہی وہ موعود رسول ہیں جن کی خوشخبری عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی اور اب کے بعد دوسرے آنے والی کی گنجائش کہاں رہ گئی جس کا انتظار اس وقت تک کیا جا رہا ہے ؟ اور اس انتظار کے پیش نظر ایک گروہ نے بار بار اس کو لانے کی کوشش کی اگرچہ ہر بار اس نے منہ کی کھائی اور جن 22 ‘ 23 لوگوں نے اپنے موعود ہونے کا دعوی کیا انکے دعوے سمیت انکو خاک کے سپرد کردیا گیا اور اس تئیسویں نے مہلت پائی وہ علمائے کرام کی غلط تعبیر کے باعث پائی اور انگریز نے اس کو ایک عرصہ تک آگے بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی اور آخر کار وہ اپنے وقت پر اپنے انجام کو پہنچ کر رہا اور اس میں کسی شخص کا بھی کوئی کمال نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی کا کمال ہے جو بےآواز گنی گئی ہے ، اشارہ ہم نے کردیا ہے تفصیل انشاء اللہ العزیز اس کی اپنے وقت پر آئے گی ۔ زیر نظر آیت میں (الکتاب) کے نزول کا مقصد بھی بیان کیا گیا ہے اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ جس بات میں اختلاف کر رہے ہیں اس کو واضح کردیا جائے اور یہ بات قرآن کریم نے جابجا کہی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور تبیین حقیقت اور رفع اختلاف کے لئے ہوتا ہے یعنی جن باتوں کو انسان اپنی عقل وادراک سے نہیں پا سکتا اور اس لئے طرح طرح کے اختلافات میں مبتلا ہوجاتا ہے کوئی کچھ سمجھنے لگتا ہے کوئی کچھ ‘ وحی الہی نمودار ہوتی ہے تاکہ ان اختلافات کو دور کر دے اور بتلا دے کہ اصل حقیقت کیا ہے چناچہ یہاں بھی آیت 64 میں قرآن کریم کے نزول کا ایک مقصد یہ بتلایا گیا ہے کہ (آیت) ” لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ “۔ یہ باتیں کونسی ہیں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں اور جن کا اختلاف بغیر اس کے دور نہیں ہو سکتا کہ کتاب الہی آئے اور پردہ اٹھا دے ؟ وہ تمام باتیں جو انسان کے عقل وادراک کی سرحد سے ماورا ہیں ‘ اللہ کی صفات ‘ مرنے کے بعد زندگی ‘ عالم معاد کے احوال اور واردات ‘ جزائے عمل کا قانون ‘ عالم غیب کے حقائق یعنی وہ ساری باتیں جن کے اعتقاد وعمل کی درستگی سے روحانی سعادت کی زندگی پیدا ہو سکتی ہے انسان جب کبھی اس راہ میں وحی الہی کی روشنی سے الگ ہو کر قدم اٹھاتا ہے ، اختلافات کی تاریکیوں میں گم ہوجاتا ہے لیکن جونہی اس روشنی کی نمود میں آجاتا ہے حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہر طرح کے اختلافات وشکوک معدوم ہوجاتے ہیں۔
Top