Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 72
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً وَّ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ یَكْفُرُوْنَۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تم میں سے اَزْوَاجًا : بیویاں وَّجَعَلَ : اور بنایا (پیدا کیا) لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَزْوَاجِكُمْ : تمہاری بیویاں بَنِيْنَ : بیٹے وَحَفَدَةً : اور پوتے وَّرَزَقَكُمْ : اور تمہیں عطا کیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاک چیزیں اَفَبِالْبَاطِلِ : تو کیا باطل کو يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں وَ : اور بِنِعْمَةِ : نعمت اللّٰهِ : اللہ هُمْ : وہ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کردیئے اور تمہارے جوڑوں میں تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کردیئے نیز تمہاری روزی کے لیے اچھی اچھی چیزیں مہیا کردیں ، پھر کیا یہ لوگ جھوٹی باتیں تو مان لیتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں ؟
اللہ نے تمہاری جنس ہی سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہیں بڑھا دیا : 82۔ انعامات الہی کا ذکر جاری ہے زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو میں نے تمہیں جنس میں تمہاری بیویاں بنا دی ہیں تاکہ باہمی موانست بھی پوری ہو اور نسل انسانی کی بقاء اور اس کی شرافت و بزرگی بھی قائم رہے ، اس آیت میں لفظ (انفسکم) ” آیا ہے جس کا ترجمہ ہمارے مفسرین نے جنہوں نے عربی تفاسیر لکھی ہیں اول سے آخر تک سب ہی نے کیا ہے ” اے من جنسکم “ اور اردو مترجمین نے ترجمہ کیا ہے ” تمہیں میں سے “ ” تمہاری ہی قسم سے “ ” تمہاری ہی جنس سے “ پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ جن لوگوں نے (آیت) ” من نفس واحدۃ “۔ کا ترجمہ عربی میں ” اے من جنس واحدۃ “ اور اردو میں ” ایک ہی جنس سے “ کیا تھا تو شورپیا ہوگیا تھا اور ہر طرف سے ان لوگوں پر جنہوں نے یہ ترجمہ کیا کافر کافر کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اور طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا ایک نے کچھ غلط سلط کہا تو پھر جو اٹھا اس نے نہ معلوم کیا کچھ کہہ دیا اور کفر کے کیسے کیسے فتوے لگائے گئے ، مولانا ثناء اللہ امرتسری (رح) نے قرآن کریم کی تفسیر لکھی تو انہوں نے بھی ” نفس “ کا ترجمہ ” جنس “ کردیا اور وہ طوفان کھڑا ہوگیا کہ مولانا مرحوم پر ایک صد علماء ہند اور بیسیوں علماء سعودی عرب ‘ مصر ‘ شام ‘ لبنان ‘ یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کے نام اس میں دیئے گئے اور سب نے مل کر آپ کو کافر قرار دیا آپ کے کفریات میں سے ایک ” نفس “ کا ترجمہ ” جنس “ کرنے کا بھی تھا ، مولانا مرحوم بھی یہی کہتے کہ میرے یارو جب قرآن کریم کی دوسری آیت خود اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” نفس واحد “۔ کی بجائے (آیت) ” من انفسکم “ کا لفظ فرمایا ہے جس کا ترجمہ آپ سب کے ہاں بھی ” ای من جنسکم “ موجود ہے جو عام طور پر شائع وذرائع ہے تو اس میں سوائے جمع اور واحد کے کوئی فرق بھی ہے اور یہ کہ (نفس) جمع کے لئے آئے تو ” جنس “ ترجمہ صحیح ہے اور اگر (نفس) واحد ہو تو ” جنس “ ترجمہ کفر ہے ؟ آخر کیوں ؟ لیکن اس وقت مولانا کی کسی ایک نے بھی نہ سنی اور آپ کو ہر طرف سے پریشان کرنے کی کوشش کی گئی آج جب وہ دونوں فریق یعنی کافربنانے والے بھی اور کافر بننے والا بھی نہ رہے تو سب نے مولانا مرحوم کو (رح) کہنا شروع کردیا آج ان مرنے والوں کی روحیں اپنے ماننے والوں کو کیا کہتی ہوں گی ؟ ہمارے عرض کرنے کا مطلب فقط یہ ہے کہ بدقسمتی سے قوم مسلم کے ہاں لوگوں کو کافر بنانے کا اتنا ذوق وشوق ہے کہ ذرا کسی نے ان علماء کے اختراعی عقیدوں کے خلاف زبان سے کوئی بات نکالی کہ کفر کا فتوی جاری ہوا اگرچہ ان کا اپنا ہی بنایا ہوا عقیدہ قرآن کریم اور سنت رسول دونوں کے مخالف ہو ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ سب سے زیادہ وزنی دلیل یہ ہے کہ آج تک ہمارے علماء یہ کہتے آئے ہیں آج فلاں کی سمجھ میں یہ کیسے آگیا جبکہ اتنے اتنے بڑے علماء کرام کی سمجھ میں نہ آیا گویا وہی اعتراض جو کفار اور مشرکین مکہ کرتے تھے اس کے سوا ان کو اور کوئی بات میسر نہ آئی اور کفار کے کہے ہوئے جملہ کو بےدھڑک کہنا شروع کردیا ۔ واہ رے زمرہ علماء تمہاری بھی کیا ہی بات ہے ۔ ہم کرتے ہیں آہ تو ہوتے ہیں بدنام جو وہ کرتے ہیں قتل تو چرچا نہیں ہوتا : یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اولاد تو ماں باپ دونوں ہی سے مل کر پیدا ہوتی ہے اس آیت میں اس کو صرف ماؤں سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ۔ ” اس میں اشارہ ہے کہ بچہ کی تولید و تخلیق میں بہ نسبت باپ کے ماں کا دخل زیادہ ہے باپ سے تو صرف ایک قطرہ بےجان نکلتا ہے اس قطرہ پر مختلف قسم کے دور گزرتے ہوئے انسانی شکل میں تبدیل ہونا اور اس میں جان پڑنا قدرت کے ان سارے تخلیقی کارناموں کا محل تو ماں کا پیٹ ہی ہے اسی لئے حدیث میں ماں کے حق کو باپ کے حق پر مقدم رکھا ہے “۔ (معارف القرآن) اگر میتک محمد شفیع صاحب مرحوم سے کوئی پوچھ لیتا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کسی کی اولاد تھے یا نہیں ؟ اور یہ کہ آپ نے اس تخلیقی قطرہ یعنی ” نطفہ “ کو بےجان کیسے کہہ دیا ؟ تو اس پر کیا فتوی صادر ہوتا ؟ مولانا مرحوم تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ہزاروں مولانا ابھی زندہ ہیں کسی مولانا سے پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا فتوی ملتا ہے ، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ، اس جملہ میں بیٹوں کے ساتھ پوتوں کا ذکر فرمانے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس جوڑے بنانے کا اصل مقصد نسل انسانی کی بقاء ہے کہ اولاد اور پھر اولاد ہوتی رہے تو یہ انسان کی بقاء نوعی کا سامان ہے جو ایک طرح سے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے ۔ فرمایا کہ اے انسان ہم نے تجھ کو پیدا کیا تو تیری غذا کا بندوبست بھی کردیا : 83۔ مجموعی طور پر اس آیت میں تین نعمتوں کا ذکر کیا گیا ۔ (1) ۔ یہ کہ اس نے انسان کی زندگی ایک ہی جنس کی دو مختلف صنفوں یعنی مرد اور عورت میں تقسیم کردیا اور پھر ایک کو دوسرے کا ساتھی بنا دیا یعنی ازدواجی زندگی کا نظام قائم کردیا ہے اور اس میں ساری تسکین حیات رکھ دی ہے ، ایک ایسی محبت ‘ طلب صادق فریقین میں رکھ دی ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری چیز سے دی ہی نہیں جاسکتی ۔ (2) ۔ یہ کہ ازدواجی زندگی سے خاندانی زندگی پیدا ہوگئی ‘ اولاد پیدا ہوتی ہے پھر ان کی اولاد پیدا ہوتی ہے اور اس طرح ایک دائرہ قریبی رشتہ داروں کا بن جاتا ہے جس کا ہر فرد دوسرے فرد سے وابستہ ہوتا ہے اور پھر اس وابستگی سے اجتماعی زندگی کی ساری برکتیں اور راحتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (3) ۔ یہ کہ اس کی غذا کے لئے اچھی چیزیں پیدا کردیں جو نہ صرف مفید ہیں بلکہ خوشگوار ہیں ‘ خوش رنگ ہیں ‘ خوشبو ہیں جن کے استعمال سے فرحت و توانائی حاصل ہوتی ہے ۔ ذرا غور کرو کہ کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ حالات متفاوت ہیں طبائع متنوع ہیں ‘ اشغال مختلف ہیں ‘ اغراض متضاد ہیں لیکن معیشت کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لئے یکساں ہے اور سب ایک ہی طرح اس کی مشغولیتوں کے لئے جوش وطلب رکھتے ہیں ، مرد و عورت ‘ طفل وجوان ‘ امیر وفقرا و جاہل ‘ قوی و ضعیف ‘ تندرست وبیمار مجرد ومتاہل ‘ حاملہ ومرضعہ سب اپنی اپنی حالتوں میں منہمک ہیں اور کوئی نہیں جس کے لئے زندگی کی کاوشوں میں محویت نہ ہو ‘ امیر اپنے محل کے اندر عیش ونشاط میں اور فقیر اپنی بےسروسامانیوں کی فاقہ مستی میں زندگی کی کرتا ہے لیکن دونوں کے لئے زندگی کی مشغولیتوں میں دل بستگی ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون زیادہ مشغول ہے۔ ایک تاجر جس انہماک کے ساتھ اپنی لاکھوں روپے کی آمدنی کا حساب کرتا ہے اسی طرح ایک مزدور بھی دن بھر کی محنت کے چند پیسے گن لیا کرتا ہے اور دونوں کے لئے یکساں طور پر زندگی محبوب ہوتی ہے ایک حکیم کو دیکھو جو اپنے علم و دانش کی کاوشوں میں غرق ہے اور ایک دہقان کو دیکھو جو دوپہر کی دھوپ میں برہنہ سر ہل جوت رہا ہے اور پھر بتلاؤ کس کی زندگی کی مشغولیتوں میں زیادہ دل بستگی ہے ؟ ایک بار پھر دیکھو کہ بچے کی پیدائش ماں کے لئے کیسی جان کا ہی ومصیبت ہوتی ہے ؟ اس کی پرورش ونگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا ایک طول طویل سلسلہ ہے ؟ تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہشوں اور جذبوں کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرورش اولاد کے لئے مجنونہ خود فراموشنی رکھتی ہے ، وہ زندگی کا سب سے بڑی دکھ سہے گی اور پھر اسی دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی ! وہ جب اپنی معیشت کی ساری راحتیں قربان کردیتی ہے اور اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بناکر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ زندگی کے سب سے بڑے احساس مسرت سے معمور ہوجاتا ہے پھر کاروبار فطرت کے تصرفات دیکھو کہ کس طرح نوع انسانی کے منتشر افراد ‘ اجتماعی زندگی کے بندھنوں سے باہم دگر مربوط کردیئے گئے ہیں ؟ اور کس طرح صلہ رحمی کے رشتہ نے ہر فرد کو سینکڑوں ‘ ہزاروں افراد کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ؟ فرض کرو کہ زندگی ومعیشت ان ساری مؤثرات سے خالی ہوتی ‘ ہاں ! قرآن کریم کہتا ہے کہ خالی نہیں ہو سکتی تھی ، اس لئے کہ فطرت کائنات میں رحمت کار فرما ہے اور رحمت کا مقتضی یہی تھا کہ معیشت کی مشقتوں کو خوشگوار بنا دے اور زندگی کے لئے تسکین و راحت کا سامان پیدا کر دے ۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت ‘ الم میں لذت اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ قرآن کریم نے تسکین حیات کے مختلف پہلوؤں پر جا بجا توجہ دلائی ہے ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر واشیاء کا اختلاف وتنوع ہے ، انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ، کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی وتنوع میں خوشگواری وکیفیت محسوس کرتی ہے بس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی ویک رنگی ہی ہوتی تو یہ دلچسپی اور خوشگوار بنا دے اور زندگی کے لئے تسکین و راحت کا سامان پیدا کر دے ۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت ‘ الم میں لذت اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ قرآن کریم نے تسکین حیات کے مختلف پہلوؤں پر جا بجا توجہ دلائی ہے ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر واشیاء کا اختلاف وتنوع ہے ، انسانی طیعت کا خاصہ ہے ، کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی وتنوع میں خوشگواری وکیفیت محسوس کرتی ہے بس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی ویک رنگی ہی ہوتی تو یہ دلچسپی اور خوشگواری پیدا نہ ہو سکتی جو اس کے ہر گوشہ میں ہمیں نظر آرہی ہے اوقات کا اختلاف ‘ موسموں کا اختلاف ‘ خشکی وتری کا اختلاف ‘ مناظر طبیعت اور اشیائے خلقت کا اختلاف جہاں بیشمار مصلحتیں اور فوائد رکھتا ہے وہاں ایک بڑی مصلحت دنیا کی زیب وزینت اور معیشت کی تسکین و راحت بھی ہے۔ گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں میں ہے زیب اختلاف سے ۔
Top