Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور گھوڑے ، خچر اور گدھے پیدا کردیئے ہیں کہ تم ان سے سواری کا کام لو اور ویسے ان میں خوشنمائی اور رونق بھی ہے وہ (سواری کے لیے) اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کی تمہیں خبر نہیں
تفسیر : یہ گھوڑے ‘ خچر اور گدھے تمہارے لئے کیسے پیدا کردیئے گئے اور کیوں ؟ : 11۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں تمہاری باربرداری کا خیال رکھا وہاں تمہاری سواری کا بھی انتظام فرما دیا ، جب تم ان پر سوار ہوتے ہو تو وہ اپنی سبک رفتاری سے ہوا سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور قلیل عرصہ ہی میں تمہیں اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں اور پھر قطع مسافت میں سہولت کے ساتھ ساتھ اس میں زینت کا پہلو بھی قابل لحاظ ہے ، ایک خوبصورت نقرے گھوڑے پر انسان سوار ہو تو وہ کتنا سجیلا معلوم ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس وقت برتری کے جس جذبہ سے سرشار پاتا ہے وہ تو بیان سے باہر ہے ، اس جگہ گھوڑے ‘ خچر اور گدھے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ تینوں جانور وہ ہیں جو قریب الجنس ہونے کے باعث بار برداری اور سواری کا کام دینے والے ہیں ، اور یہ بھی کہ گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے خچر پیدا ہوتا ہے یعنی نر گھوڑا ہو اور مادہ گدھا یا نر گدھا ہو اور مادہ گھوڑا تو دونوں صورتوں میں نتیجۃ خچر ہی پیدا کرے گا ، ان جانوروں میں تمہارے لئے سواری کے فوائد بھی ہیں اور زینت بھی اور اس کے بعد فرمایا کہ ابھی وہ وہ سواریاں تمہارے لئے پیدا ہوں گی جن کو تم اس وقت تک نہیں جانتے کہ وہ سواریاں کیا کیا ہوں گی ؟ سواری کی بہت سی چیزیں پیدا ہوں گی جن کو تم ابھی نہیں جانتے : 12۔ آج کتنی سواریاں ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں ، یہ ریل گاڑیاں ‘ بسیں ‘ کاریں اور ہوائی جہاز وغیرہ سب نئی اقسام کی سواریاں ہیں اور ابھی نہ معلوم کیسی کیسی مزید سواریاں آنے والی ہیں جن کے ذریعہ زمین پیمائی کے علاوہ آسمانی پیمائی کا کام لیا جائے گا اور آیت ان سب سواریوں کی نشاندہی کرتی ہے اور ان میں جو زینت رکھی گئی ہے اس کا کون انکار کرسکتا ہے ؟ زینت ان جانوروں میں بھی پائی جاتی تھی اور سواریوں کی ان چیزوں میں بھی وافر موجود ہے ۔ ہوائی سفر کر کے آنے والا اپنے آپ کو کتنا امتیازی انسان سمجھتا ہے آج یہ کسی سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان سب چیزوں کی تخلیق اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور خالق مطلق ان سب کا وہی ہے سائنس قدیم اور جدید کا ابھی بھی صرف اتنا ہی کام ہے کہ قدرت کی پیدا کی ہوئی دھاتوں میں قدرت ہی کی دی ہوئی عقل وفہم کے ذریعہ جوڑ توڑ کر کے ان کے مختلف کل پرزے بنائے اور پھر اس میں قدرت الہیہ کی بخشی ہوئی ہوا ‘ پانی اور آگ وغیرہ سے برقی روپیدا کرلی یا قدرت ہی کے دیئے ہوئے خزانوں میں سے پڑول نکال کر ان سواریوں میں استعمال کرے ۔ سائنس جدید ہو یا قدیم آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کہیں لوہا اس نے تیار کرلیا ہو یا پتیل بنا لی ہو اور نہ ایلومینیم جیسی کوئی ہلکی دھات پیدا کرسکتی ہے اور تو اور لکڑی تک کو تو وہ پیدا نہیں کرسکی اور نہ ہی کبھی کرسکے گی ، قدرت الہی نے انسان کے لئے ان ساری چیزوں کی فراوانی پیدا کی اور ایک مدت سے پیدا کی ہوئی تھی ان ساری چیزوں سے اس طرح کا کام لینا تو ایک مسلم کا کام تھا لیکن افسوس کہ علمائے اسلام نے مسلمانوں کو ان چیزوں کی ایجاد کے قریب ہی نہ جانے دیا اور قرآن کریم کی ان عبارات پر غور وفکر کرنا قوم کے لئے حرام ٹھہرا دیا اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ غرد مسلم قوموں نے اس سے فائدہ حاصل کیا اور آج وہ قوم مسلم کو اسی ناطے سے ناکوں چنے چبوا رہی ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گزشتہ تمام اشاء کی تخلیق میں لفظ ماضی (خلق) استعمال فرمایا گیا ہے اور معروف سواریوں کا ذکر کرنے کے بعد بصیغہ مستقبل (یخلق) ارشاد فرمایا اور اس تغیر ہی سے واضح ہوگیا کہ یہ لفظ ان سواریوں اور دوسری اشیاء کے متعلق ہے جو ابھی تک معرض وجود میں نہیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اگلے زمانے میں کیا کیا سواریاں اور اشیاء کو پیدا کرنا ہے لیکن ان سب کو اظہار اس مختصر فقرہ میں کردیا گیا ۔
Top