Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
اللہ حکم دیتا ہے کہ انصاف کرو ، بھلائی کرو اور قرابت داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور تمہیں روکتا ہے بےحیائی کی باتوں سے ، ہر طرح کی برائیوں سے اور ظلم و زیادتی کے کاموں سے ، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو
اس آیت میں تین چیزوں عدل ‘ احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیا گیا : 102۔ زیر نظر آیت کے اس مختصر سے فقرہ میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرہ کی درستی کا انحصار ہے اور اس میں پہلی چیز عدل ہے اب غور کرنا ہے کہ عدل کیا ہے ؟ کسی بوجھ کو دو برابر حصوں میں اس طرح بانٹ دیا جائے کہ ان دو میں سے کسی میں ذرا بھی کمی یا بیشی نہ ہو تو اس کو عربی میں ” عدل “ کہتے ہیں ، (امام راغب) اس سے وہ معنی پیدا ہوتے ہیں جن میں ہم اس لفظ کو اپنی زبان میں بولتے ہیں یعنی جو بات ہم کہیں یا جو کام کریں اس میں سچائی کی میزان کسی طرح جھکنے نہ پائے اور وہی بات کہی جائے اور وہی کام کیا جائے جو سچائی کی کسوٹی پر پورا اترے اس تشریح سے معلوم ہوگا کہ اخلاق کی ترازو میں عدل و انصاف کا پلہ بھی کچھ کم بھاری نہیں ۔ عدل سب سے پہلے خود اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جن روایات میں اللہ تعالیٰ کے 99 نام گنائے گئے ہیں ان میں ایک ” عدل “ یعنی عدل والا کے بھی ہیں اور ان کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا فیصلہ حق ہوتا ہے ‘ وہ حق بات کہتا ہے اور وہی کرتا ہے جو حق ہے (بیہقی ص 71) قرآن کریم میں کئی دفعہ یہ حقیقت مختلف لفظوں میں دہرائی گئی ہے فرمایا (واللہ یقضی بالحق) (ال مومن 40 : 20) ” اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے ۔ “ اور ظاہر ہے کہ یہ عدل کی طرف اشارہ ہے اور دوسری جگہ فرمایا (واللہ یقول الحق) (الاحزاب 33 : 4) ” اللہ حق بات کہتا ہے ۔ “ یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کے عدل قولی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ دونوں باتیں قرآن کریم کی آیت میں یکجا بھی بیان کی گئی ہیں فرمایا (وتمت کلمہ ربک صدقا وعدلا) (الانعام 6 : 115) ” اور تیرے رب کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہوگئی ۔ “ دنیا کا یہ سارا کارخانہ جو آسمان سے لے کر زمین تک پھیلا ہوا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے بل بوتے پر قائم ہے ‘ وہ اپنی تمام مخلوقات میں اپنی شہنشاہی پورے انصاف کے ساتھ قائم کئے ہوئے ہے اور یہی اس کی وحدانیت کی دلیل ہے اور اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملئکۃ واولوالعلم قآئما بالقسط “۔ (آل عمران : 3 : 18) اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی عدل کے ساتھ اس کی گواہی دی ۔ “ معلوم ہوگیا کہ عدل و انصاف صرف نظم وسلطنت ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں عدل کی ضرورت ہے اور نظام عالم محض عدل کی وجہ سے قائم ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی جامع آیت میں جن اچھی باتون کا حکم دیا ہے وہ یہی آیت ہے جس کی یہاں تفسرک کی جا رہی ہے اور ان میں سب سے پہلے عدل و انصاف کرنے ہی کا حکم دیا ہے ، دراصل عدل ہی قانون کا اقتضاء ہے اور احسان کرنا اور درگزر کرنا اخلاق کا مطالبہ ہے اللہ تعالیٰ نے نظم عالم کو قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے عدل کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد احسان کی تاکید کی ہے ۔ جس سے اشخاص کی روحانی تکمیل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ سارے عالم کی نگہداشت کا فرض کسی شخص کی ذاتی تکمیل کے فرض سے زیادہ اہم ہے ، پھر اس مجمل تعلیم پر بس نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے اہم شعبوں کو لے کر ان میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ۔ مثلا معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کی سب سے زیادہ ضرورت ان لوگوں کو ہوتی ہے جو ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کرتے ہیں اس لئے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ (آیت) ” فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوما ملکت ایمانکم “۔ (النساء 4 : 3) ” اگر تم کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ (ایک سے زائد بیبیوں میں) انصاف نہ کر سکوگے ‘ تو ایک ہی بیوی کرنا یا وہ جو تمہاری ملک یمین ہوں ان سے نکاح کرلینا “۔ عورتوں کے بعد یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بھی عدل و انصاف کی ضرورت ہے اس لئے کہا گیا کہ ” یتیموں کے حق میں انصاف ملحوظ رکھو “۔ (النساء 4 : 127) قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بار بار اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ ناپ تول میں بےانصافی نہ کی جائے کیونکہ خریدوفروخت کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے اس لئے وزن وپیمانہ میں کمی کرنے سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ نہایت عام ووسیع ہے اس کے ساتھ نہایت حقیر مقدار میں کمی کرنے سے انسان کی سخت دنائت ثابت ہوتی ہے اور اس سے روح میں سخت اخلاقی گندگی پیدا ہوتی ہے پھر عدل و انصاف کی ضرورت خاص کر عدالتی معاملات میں ہوتی ہے اور اسلام نے عدالتی کاروبار کے ہر پہلو میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھا ہے ، اس کے بعد شہادت یا فیصلہ کے وقت دو حالتوں میں اکثر لوگوں کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے ایک تو یہ کہ فریق مقدمہ اپنا قرابت دار ہو یا اس سے گواہ یا حاکم کی عداوت ہو لیکن اسلام نے عدالتی کاروبار کے ہر پہلو میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھا ہے ، اس کے بعد شہادت یا فیصلہ کے وقت دو حالتوں میں اکثر لوگوں کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے ایک تو یہ کہ فریق مقدمہ اپنا قرابت دار ہو یا اس سے گواہ یا حاکم کی عداوت ہو لیکن اسلام کی اخلاقی تعلیم اس حالت میں بھی عدل و انصاف سے تجاوز کرنے کو جائز نہیں رکھتی چناچہ ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” واذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربی “۔ (الانعام 6 : 152) ” اور جب بات کہو تو اگرچہ قرابت داری ہو انصاف کا پاس رکھو “۔ یہود ونصاری اسلام کے کھلے دشمن تھے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے وحی الہی یہ بات کہلواتی ہے کہ : (آیت) ” وقل امنت بما انزل اللہ من کتب وامرت لا عدل بینکم اللہ ربنا وربکم لنا اعمالنا ولکم اعمالکم لا حجۃ بیننا وبینکم اللہ یجمع بیننا والیہ المصیر “۔ (شوری 43 : 15) ” اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی ‘ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور ہمارے تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ، اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اس کی طرف سب کو جانا ہے “۔ جس عدل اور برابری کا حکم اس آیت کریمہ میں ہے اس کے کئی پہلو ہیں ایک یہ کہ جو سچائی مجھ تک پہنچی ہے اس کو میں برابر برابر تم سب کو پہنچا دوں دوسرا یہ کہ محض دینی مخالفت کی وجہ سے تمہارے ساتھ بےانصافی نہ کی جائے بلکہ وہ کیا جائے جس کا تقاضا عدل و انصاف کرتا ہے اور تیسرا یہ کہ اب تک تم میں مقدمات کے فیصلہ کی جو یہ صورت جاری ہے کہ دولت مندوں اور عزت والوں کے ساتھ رعایت کا اور عام لوگوں کے ساتھ سختی کا قانون برتا جائے ‘ میرے رب نے ایسا کرنے سے مجھے منع کیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ عام وخاص اور امیر و غریب سب کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کیا جائے کیونکہ ہمارا تمہارا سب کا رب ایک ہی ہے ہم سب اس کے غلام ہیں اس لئے اس کے سب غلاموں کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے ہم کو ہمارا اعمال اور تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ ملے گا ، اس میں جھگڑنے کی کوئی بات نہیں سب کو قیامت میں اس مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونا ہے جس کا کام اس کو پسند آئے گا اس کو ویسا ہی انعام ملے گا اور اگر برا کام کیا ہے تو ویسی ہی سزا ملے گی ۔ عدل و انصاف کی راہ میں ان سب سے زیادہ ایک اور کٹھن منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے نفس کے مقابلہ میں بھی عدل و انصاف کا سررشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے نبی اعظم وآخر ﷺ کی پاک تعلیم کی روشنی میں اہل ایمان کو اس کٹھن منزل کی رہنمائی بھی پوری طرح کی گئی ہے ارشاد الہی ہے کہ ” مسلمانو ! ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے ہو اگر تمہیں خود اپنے خلاف یا اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے جب بھی نہ جھجھکو ‘ اگر کوئی مالدار یا محتاج ہے تو اللہ تم سے زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ مال دار کا دولت کے لالچ میں یا محتاج کی محتاجی پر ترس کھا کر سچی بات کہنے سے باز رہو پس ایسا نہ ہو کہ ہوائے نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے اور اگر تم بات گھما پھرا کر کہو گے یا گواہی دینے میں پہلو تہی کرو گے تو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے ۔ “ (النساء : 4 : 135) ان آیات کریمات سے عدل کے خلاف ایک ایک ریشہ کو جڑ سے نکال کر پھینک دیا گیا ہے کہا گیا ہے کہ معاملات میں عدل و انصاف کی حمایت تمہارا مقصد ہو جو کچھ کہو یا کرو خدا لگتی کہو اور خدا واسطے کہو ‘ عدل و انصاف کے فیصلہ اور گواہی میں نہ تو اپنے نفس کا خیال بیچ میں آئے نہ عزیزوں اور قرابت داروں کا ‘ نہ دولت مندوں کی طرف داری کا ‘ نہ محتاج پر رحم کا ‘ پھر اس فیصلہ اور گواہی میں کوئی بات لگی لپٹی نہ رکھی جائے ‘ نہ حق کا کوئی جان بوجھ کر بچالیا جائے ‘ مطلب یہ ہوا کہ فیصلہ اور گواہی میں دولت مند کی پاسداری نہ کرو اور نہ محتاج پر ترس کھاؤ اور قرابت کو بھی نہ دیکھو ‘ جو حق ہو وہ کرو یا کہو ‘ کچھ چھپا لو تو یہ سب باتیں عدل و انصاف کے خلاف ہیں ، کسی غریب کی غربت پر ترس کھا کر فیصلہ میں ردوبدل کردینا بظاہر نیکی کا کام دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت یہ ایک مقدس فریب ہے ‘ فیصلہ میں ترس کھا کر بےایمانی کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی کی خاطر رکھ کر یا کسی کی بزرگی کو مان کر یا کسی کی بڑائی سے مرعوب ہو کر بےایمانی کرنا ہے غرض یہ ہے کہ عدل و انصاف کی راہ میں کوئی اچھا یا برا جذبہ حاکم کے لئے ٹھوکر کا پتھر نہ بنے ۔ اس طرح اس آیت کا اشارہ ادھر بھی ہوا کہ جو گواہ کسی فریق کو نفع پہنچانے کی غرض سے طرفدارانہ گواہی دیتا ہے وہ غلطی میں مبتلا ہے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اس کا نگران نہیں ہو سکتا ‘ اس لئے نہ گواہوں کو اس کے لئے طرفداری کرنی چاہئے اور نہ خود کسی فریق کو گواہ کی طرفداری کے ذریعہ سے منفعت کا خیال دل میں لانا چاہئے بلکہ دونوں کو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردینا چاہئے کہ وہی ان کا سب سے بہتر اور سب سے بڑھ کر ولی ہے ۔ یہ مضمون قرآن کریم کی آیات کے تحت آپ پڑھ رہے ہیں آپ ایمانداری سے ذرا غور وفکر کرکے بتائیں کہ اس طرح کی تعلیم دینے والا قرآن کریم اور محمد رسول اللہ ﷺ اور خود اللہ تعالیٰ اپنے نبی ورسول سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ اے یوسف ! تو اپنے بھائی بنیامین کی بوری میں ایک پیالہ رکھ دے اور جب قافلہ تیار ہو کر نکلنے لگے تو اپنے کارندوں کو کہو کہ ان کو چور کہہ کر بلاؤ اور ان کے سامان کی تلاشی لو اور پھر جس کے سامان سے وہ پیالہ دستیاب ہوجائے اس کو ملزم بنا کر روک لو یہ تدبیر ہم (اللہ تعالیٰ ) تجھ کو بتا رہے ہیں کیونکہ تو بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو روک نہیں سکتا تھا اور ہماری اس تدبیر سے تمہارے بھائی رک جائے گا اور تمہاری خواہش پوری ہوجائے گی ، کیا انصاف کے تقاضے یہی ہیں جن کے متعلق اوپر ہدایات دی جا رہی ہیں کیا اللہ تعالیٰ بھی فریب سکھاتا ہے ؟ اور دھوکہ دہی کا سبق دیتا ہے ؟ اگر نہیں تو تم نے قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ کرتے وقت کیوں نہ سوچ بچار سے کام لیا اور سیدھا ترجمہ کرنے کی بجائے کیوں الٹا مفہوم بیان کرنا شروع کردیا اور قرآن کریم میں کیوں تناقض ڈال دیا ۔ پھر تم کو ذرا خیال نہ آیا کہ اگر باہر سے آیا ہو آدمی مصر میں نہیں ٹھہر سکتا تھا تو یہ بنیامین کا بڑا بھائی یعنی یعقوب (علیہ السلام) کا بیٹا مصر میں کیسے رہ گیا جس نے زور دے کر بھائیوں کو یہ کہ کہ ” اب میں یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک میرا والد مجھے اجازت نہدے یا پھر اللہ ہی کوئی میرے حق میں فیصلہ فرما دے ۔ “ (12 : 80) بنیامین کو ملزم بنا کر روکا گیا اور یہ بھائی جو خود بخود رک گیا اس کو کیسے یہاں رہنے دیا گیا کیا قرآن کریم کی ہدایات میں تناقض ہے ؟ اگر نہیں تو تم نے کیوں اللہ اور اس کے رسول سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے ذمہ وہ لگا دی جو سراسر عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے قرآن کریم کا یہ حکم کہ ” اے ایمان والو ! ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والیے اور اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے ہوجاؤ ۔ “ کہا گیا کہ اس کو سچی گواہی کہتے ہیں جو ماں باپ اور اپنے نفس کے خلاف بھی لگے تو سچ سچ کہنے کی ہدایت ہے ، ہاں غور کرو اور سچ کہنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور صاف صاف کہہ دو کہ ہمیں جو مفہوم ان سورة یوسف کی آیات کا سمجھایا گیا ہے وہ صحیح نہیں اور اللہ تعالیٰ کبھی متضاد ہدایات نہیں دیتا جن لوگوں نے ایسا ترجمہ کیا ہے انہوں نے تحریف شدہ تورات کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجمہ کردیا ہے اور اس طرح تفسیر بیان کردی ہے جو حقیقت کے سراسر خلاف ہے ۔ مختصر یہ کہ اوپر بیان کی گئی آیات کریمات کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے عدل و انصاف کا جو حکم دیا ہے وہ اخلاق ‘ معاشرت اور سیاست کے ہر ایک گوشہ کو محیط ہے یعنی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس پر اسلام کی یہ اخلاقی تعلیم حاوی نہ ہو ۔ ان آیات کی رو سے اگرچہ ہر مسلمان کو عادل ہونا چاہئے تاہم امام وحاکم وقت کے لئے عادل ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہے اس لئے حدیث شریف میں امام عادل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں لے لے گا جن میں سے ایک شخص وہی امام عادل ہوگا ۔ (بخاری کتاب المحاربین باب فضل من ترک الفواحش) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم سب کو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما اور اللہ کی کتاب اور سنت رسول کو سمجھنے کی ہمت اور طاقت عنایت فرما یا ارحم الراحمین ہم سب پر رحم فرما۔ دوسری بات جو اس جگہ تلقین کی گئی ہے وہ احسان ہے اس لئے ہم کو غور کرنا ہے کہ احسان کیا ہے ؟ احسان بھلائی کو کہتے ہیں اور یہ ایک ایسی صفت ہے جو ہر نیکی کے کام کو محیط ہے اس لئے اس کی صورتیں ان گنت اور بیشمار ہیں کہ ان کا مکمل احاطہ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان تمام سورتوں کی ایک عام شکل یہ نکلتی ہے کہ دوسرے کے ساتھ ایسا نیک سلوک کرنا جس سے اس کا دل خوش ہو اور اس کو آرام پہنچے ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر محسن اور کوئی نہیں ہوگا جس کے احسانات کی حد وپایاں نہیں ہے ، عرش سے فرش تک جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے احسانوں کی جلوہ نمائی ہے اور کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احسانات کو شمار کرنا چاہئے تو ممکن نہیں کہ ان کو شمار کرسکے وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں لیکن زیر نظر آیت میں ہم سب کو حکم دیا جا رہا ہے کہ ” احسان کرو “ یعنی نیکی اور بھلائی کرو ‘ قرابتداری کے ساتھ ‘ ماں باپ کے ساتھ ‘ یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ ‘ رشتہ دار پڑوسیوں کے ساتھ اور غیر رشتہ دار پڑوسیوں کے ساتھ ‘ آس پاس کے بیٹھنے والوں کے ساتھ ‘ مسافروں ‘ غلاموں ‘ کمزوروں کے ساتھ اور خصوصا جو احسان کرنے کو تیار نہ ہوں ان کے ساتھ بھی تم احسان کرو ، احسان کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ کسی کو اس کی مصیبت سے نجات دلائی جائے خواہ وہ کسی طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو ‘ غرض کسی کو مالی امداد دینا یا کسی کو کسی دوسری مصیبت سے نجات دلانا احسان کی اہم صورتیں ہیں اور علاوہ ازیں بھی بہت سے کام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لفظ احسان کا اطلاق فرمایا اور حکم دیا مثلا عورتوں کو قانونی حیلے نکال کر دق کرنا برا کام تھا ، جس سے مسلمانوں کو روکا گیا اور فرمایا گیا کہ اگر عورت کو اپنی زوجیت میں رکھنا پسند نہ ہو تو نہایت خوبی کے اس کو الگ کر دو ۔ چناچہ ارشاد فرمایا (آیت) ” الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “۔ (البقرہ : 2 : 229) ” طلاق جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے دو مرتبہ پھر اس کے بعد شوہر کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو اچھے طریقے کے ساتھ روک لینا یعنی رجوع کیا جاسکتا ہے دو مرتبہ ہے پھر اس میں کے بعد شوہر کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو اچھے طریقے کے ساتھ روک لینا یعنی رجوع کرلینا یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ “ اس طرح اگر تم پر کسی کا کچھ واجب ہو تو اس کو بھی خوبی کے ساتھ ادا کرو اور اس کی ادائیگی میں لیت ولعل اور حجت وحوالہ نہ کرو ۔ “ (البقرہ : 2 : 185) قصور واروں کے قصور کو معاف کرنا اور ان کے مقابلہ میں غصہ کو پی جانا بھی احسان ہے اللہ تعالیٰ نے اس احسان کو یہ درجہ دیا ہے کہ جو اس صفت سے متصف ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں سے ہوں گے ، کسی غریب یا عزیز و قریب سے کوئی ایسی حرکت ہوجائے جس سے ناراضگی پیدا ہوجائے تو بھی اہل احسان کا فرض یہی ہے کہ وہ معاف کریں اور اپنے احسان سے باز نہ آئیں بلکہ اس کو بدستور جاری رکھیں ۔ ( سورة النور 24 : 22) صحابہ کرام میں کچھ ایسے لوگ تھے جو غیر مسلموں پر صدقہ کرنا ثواب کا کام نہیں سمجھتے تھے اس پر یہ حکم ہوا کہ ہدایت بخشنا تمہارا نہیں میرا کام ہے ، تم کو بلا امتیاز ہر ایک مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ نیکی کرنی اور اپنی نیت ٹھیک رکھنی چاہئے اس لئے کہ تم کو اپنی نیک نیتی کا اجر وثواب ملے گا ، نیکی کا بدلہ نیکی سے دینا اسلام کا وہ اصول ہے جس پر ثواب و عذاب کا دارومدار ہے ، جو نیک کام کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک جزا ملے گی ، دنیا کی سب سے بڑی ضرورت قرض کے بوجھ کو ہلکا کرنا ہے دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اس بوجھ کو ہلکا کیا ہے ‘ قرض داروں پر احسان کرنا ، ضرورت مندوں کو قرض دینا اور تنگ دست مقروضوں کو مہلت دینا جو قرض ادا کرنے سے بالکل مجبور ہوں ان کا قرض معاف کردینا ثواب کا کام بتایا ہے چناچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص جو نیکی کا کام نہیں کرتا تھا (یعنی فرائض کی ادائیگی کے بعد) لیکن لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب اس کا کوئی مقروض تنگ دست نظر آتا تھا تو اپنے ملازموں سے کہتا تھا کہ اس سے درگزر کرو کہ شاید اللہ ہم سے بھی درگزر کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسی صلہ میں اس سے درگزر کیا ، ایک حدیث ہے کہ تم سے پہلے ایک شخص جس سے موت کے بعد فرشتوں نے سوال کیا کہ تم نے نیک کا کوئی کام کیا ہے ؟ اس نے کہا کوئی نہیں کا فرشتوں نے کہا ذرا یاد کرو ‘ اس نے کہا میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اگر مقروض فراخ دست ہوتا تھا تو قرض لینے آسانی کرتا تھا اور اگر تنگ دست ہوتا تھا تو اس کو مہلت دیتا تھا یا یہ کہا کہ فراخ دست کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دست کو قرض معاف کردیتا تھا ۔ (بخاری کتاب البیوع باب من النظر معسراصحیح مسلم باب فضل النظائر المعسر) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ قیامت کی تکلیف سے اس کا نجات دے تو وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے ۔ (صحیح مسلم کتاب البیوع باب ایضا) ایک روایت میں یہ بات اس طرح بیان کی گئی کہ جو شخص اپنے قرض دار کو مہلت دے گا یا اس کا معاف کر دے گا تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوگا ۔ (مسند ابن حنبل جلد 5 ص 308) پھر یہ اصول کہ جو شخص احسان کرے اس کے ساتھ احسان کرنا چاہئے نبی اعظم وآخر ﷺ کی اخلاقی تعلیم کے خلاف ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے آکر پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں کسی شخص کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ میری مہمانی نہیں کرتا تو کیا جب اس کا گزر مجھ پر ہو تو میں بھی اس کی کج خلقی کا بدلہ یہی دوں ‘ فرمایا نہیں تم اس کی مہمانی کرو ۔ (جامع ترمذی باب ما جاء فی الاحسان والعفو) ایک بار نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے نہ بنو کہ خود تمہاری گرہ کی عقل نہ ہو صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرو ‘ کہتے ہو کہ اگر لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے اور اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر مطمئن کرلو کہ اگر دوسرے احسان کریں تو تم احسان کرو ہی گے اور اگر وہ برائی بھی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ “ (جامع الترمذی ایضا) عدل و انصاف اور احسان کے ساتھ تیری چیز جو بیان کی گئی ہے وہ ایتائے ذوالقربی ہے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا یا صلہ رحمی کیا ہے ؟ صلہ رحمی ہی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی وغمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے ، شریعت اسلامی ہر خاندان کے خوش حال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں ‘ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اس کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں ، وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوش حال افراد پر ہے پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں اور ہر خاندان کے خوش حال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے پھر دوسروں کے حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں یہی بات ہے جس کو نبی کریم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں واضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے چناچہ متعدد احادیث میں اس بات کی تصریح فرمائی گئی کہ آدمی کے اولین حقدار اس کے والدین ‘ اس کے بیوی ‘ بچے اور اس کے بھائی بہن ہیں پھر ہو جو ان کے بعد قریب تر ہوں اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کریں کیونکہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہیں اور ایک دوسرے یتیم کے متعلق آپ کا بیان موجود ہے کہ اگر اس کا کوئی بعید رشتہ بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کردیتا ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قریب کے رشتہ داروں کتنے ہی حقوق ہیں جن کی آج کوئی پروا نہیں کرتا حالانکہ ان چیزوں کے متعلق بارگاہ الہی میں سوال و جواب ہوگا جو ایک یقینی بات ہے ۔ اس آیت میں تین چیزوں الفحشا ‘ المنکر اور البغی سے منع فرمایا گیا : 103۔ زیر نظر آیت کے پہلے فقرہ میں تین چیزوں کے کرنے کا حکم تھا اور آیت کے اس دوسرے فقرے میں تین چیزوں سے روکا گیا ہے اور ان تینوں چیزوں میں پہلی (الفحشآء) ہے ، رہی یہ بات کہ (الفحشآء) کیا ہے ؟ یہ لفظ فحش سے نکلا ہے جس کے اصل معنی حد سے تجاوز کر جانے کے ہیں (الصحاح للجوہری) اور اس کے دوسرے لازمی معنی قبح یعنی برائی کے ہیں ۔ کیونکہ جس چیز کی جو حد خالق فطرت نے مقرر کردی ہے اس سے آگے بڑھنا قبح یعنی برائی ہے یا یہ کہ جو برائی حد سے زیادہ ہوجائے وہی فحشاء کہلاتی ہے قرآن کریم نے گناہ کے معنی میں حدود الہی سے مقدس اور تجاوز کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں ، مثال سے یوں سمجھئے کہ اللہ نے انسان کی قوت شہوانی کی تسکین کے لئے کچھ حدیں مقرر فرما دی ہیں اب جو ان حدود اور فحشاء اور فاحشہ کا مرتکب ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” والذین ھم لفروجھم حفظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العدون “۔ (المؤمنون 23 : 5 تا 7) اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی آزاد بیویوں پر یا ملک یمین پر جن سے نکاح کرلیا ہے ان پر کچھ ملامت نہیں ہے پھر جو کوئی علاوہ ازیں تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ “ اس لئے زنا کا نام بھی فاحشہ رکھا گیا ہے اور اس کے معنی ہی امر قبیح کے ہوگئے جیسا کہ ارشاد الہی ہے ۔ کہ (آیت) ” ولا تقربوالزنی انہ کان فاحشۃ وسآء سبیلا “۔ (بنی اسرائیل : 17 : 32) ” اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیونکہ یہ فاحشہ یعنی قبیح بات اور بری رہ ہے ۔ “ اور وسعت کے ساتھ اس کا اطلاق ہر فحش گوئی اور فحش کاری پر ہوتا ہے جس کی ہر نوع سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کو باز رہنے کی تاکید کی ہے ۔ دوسرا کام جس سے روکا گیا ہے وہ (المنکر) ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ (المنکر) کیا ہے ؟ اس لفظ کے لغوی معنی ناشناسا کے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جو کام لوگوں میں عام طور پر پسند کیا جاتا ہے اور جس کا کرنے والا لوگوں میں ممدوح ہوتا ہے تو جانا پہچانا کام ہے اس لئے اس کو معروف یعنی شناسا کہتے ہیں اور جو کام ہر طبقہ میں ناپسند کیا جاتا ہے اور اس کے کرنے والا سب کی نگاہ سے گر جاتا ہے وہ ” منکر “ ناشناسا ہے ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنا جو کچھ ناشنانا مہمان آجاتے ہیں کہ (قوم منکرون) (الحجر 15 ، 62) کہ لوگ ان جانے اور ان پہچانے ہیں ۔ یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جب ان کے مہمان آئے تو انہوں نے پہچان لیا مگر وہ یوسف (علیہ السلام) کو پہچان نہ سکے اس موقع پر قرآن کریم نے فرمایا (آیت) ” فعرفھم وھم لہ منکرون “۔ (یوسف 12 : 58) ” یعنی یوسف نے تو ان کو پہچان لیا مگر وہ ان کو پہچان نہ سکے ۔ “ ناگواری کی حالت میں انسان کا چہرہ ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ وہ کس طرح بگڑ جاتا ہے اور اس کے طور وانداز سے بداہۃ ’ ناگواری ظاہر ہونے لگتی ہے یہ کیفیت بھی منکر ہے فرمایا : (آیت) ” وذا تتلی علیہم ایتنا بینت تعرف فی وجوہ الذین کفروا المنکر یکادون یسطون بالذین یتلون علیھم ایتنا “۔ (الحج 22 : 72) پہچانے گا نزدیک ہوتے ہیں کہ وہ ان پر جو ہماری آیتیں سنائی جائیں تو کافروں کے چہروں سے تو منکر (بگڑی ہوئی شکل) پہچانے گا نزدیک ہوتے ہیں کہ وہ ان پر جو ہماری آیتیں سناتے ہیں حملہ کر بیٹھیں ۔ “ اس آیت میں ناخوشگواری کے اثر سے چہرہ میں جو بدنمائی پیدا ہوتی ہے اس کا منکر کہا گیا ہے ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ منکر وہ کام ہیں جن کو ہر شخص فطرتا اور بداہتہ ” ناپسند کرتا ہے اور ان کی برائی ایی کھلی ہے کہ اس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ سبب ہے کہ ہر مذہب وملت اور ہر اچھے تمدن وتہذیب میں وہ یکساں برے سمجھے جاتے ہیں ۔ تیسرا کام جس سے اس آیت میں روکا گیا (بغی) ہے جس کے معنی کسی پر زیادتی یادست درازی کرنے کے ہیں جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (خصمان بغی بعضنا علی بعض) (ص 38 : 21) ” ہم دو جھگڑنے والے ہیں ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ۔ “ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر لوگوں کو بےانتہا دولت دے دی جائے تو وہ ایک دوسرے پر زیادتی کریں گے (آیت) ” ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض “۔ (الشوری 42 : 7 12) اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے روزی پھیلا دے تو وہ زمین میں زیادتی کریں ، معلوم ہوا کہ (بغی) کے معنی دوسروں پر زیادتی اور تعدی کے ہیں ، جس سے معلوم ہوا کہ رذایل تین یعنی فحشاء ‘ منکر ‘ اور بغی میں منحصر ہیں صفات ذمیمہ فحشاء یعنی حد درجہ قبیح اور بےحیائی کے کام ہیں اور ایسی باتیں ہیں جن کو سارے انسان فطرتا ناپسند کرتے ہیں اور ان کے جائز کردینے سے دوسروں کے حقوق پر تعدی لازم آتی ہے اور المنکر کو بعض جگہ (الاثم) بھی کہا گیا ہے مختصر یہ کہ رذائل کو تین لفظوں میں منحصر کردیا گیا فواحش یعنی برائی اور بےحیائی کے سارے کام جو کھلے ہوں یا چھپے ہوں ‘ دوسرے گناہ کے کام اور ہر طرح کے برے کام جن کو (الاثم) یا (المنکر) کہا جاتا ہے اور تیسرے ناحق زیادتی ان اخلاق ذمیمہ کی جن کو ہر مذہب اور ہر انسانی معاشرت نے یکساں برا کہا ہے اگر تحلیل کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ درحقیقت برائی اور بےحیائی کے کام ہیں اور دین و شرافت کی نگاہ میں گناہ اور ناپسندیدہ ہیں اور اگر انکو جائز ٹھہرایا جائے تو افراد کے باہمی حقوق سے امان اٹھ جائے اور کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو سلامت نہ رہے ۔ مختصر لفظوں میں ان رذائل کی ترتیب اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ سب سے پہلے فحشآء پھر منکر اور اس کے بعد بغی (فحشآء) میں جس برائی کی طرف اشارہ ہے وہ اساسا ایک فرد کی ذات تک محدود رہتی ہے ۔ جیسے ننگے رہنا ‘ بدکاری میں مبتلا ہوجانا اور (منکر) سے پوری جماعت کی معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے جیسے شوہر کا ظلم باپ کی سنگدلی اور اولاد کی نالائقہ اور (بغی) جماعت سے آگے بڑھ کر پورے ملک وملت پر چھا جاتی ہے جیسے چوری ‘ ڈاکہ اور قتل وغیرہ اور ایک مسلمان کو ان سے ہر لحاظ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
Top