Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ١ؕ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَا : جو عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس يَنْفَدُ : وہ ختم ہوجاتا ہے وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَاقٍ : باقی رہنے والا وَلَنَجْزِيَنَّ : اور ہم ضرور دیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْٓا : انہوں نے صبر کیا اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ختم ہونے والا نہیں ، جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور انہیں اجر عطا فرمائیں گے انہوں نے جیسے جیسے اچھے کام کیے ہیں اس کے مطابق ہمارا اجر بھی ہو گا
تمہارے پاس کتنا بھی مال اکٹھا ہوجائے انجام کار اس کو ختم ہونا ہے : 110۔ زیر نظر آیت میں دنیا کا مال کتنا بھی ہو وہ آخرت کے لحاظ سے تھوڑا ہی ہے اس کی مزید تفصیل فرما دی کہ یہ کیسے ہوا ؟ فرمایا یہ ایسے ہوا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ (آیت) ” ماعندکم “ کے لفظ سے فقط مال ہی مراد نہیں ہے کہ اگر نقد روپیہ وصول نہ کیا تو اس حکم سے بچ گئے (ما) لغت کے اعتبار سے عام ہے اور عموم کے معنی مراد ہیں اس لئے اس میں دنیا کا مال ومتاع بھی ہے اور اس میں پیش آنے والے تمام حالات ومعاملات بھی یعنی خوشی وغمی ‘ رنج اور راحت ‘ بیماری اور صحت ‘ نفع اور نقصان ‘ کسی کی دوستی یا دشمنی یہ سب چیزیں شامل ہیں کہ سب کی سب فنا ہونے والی ہیں البتہ ان حالات ومعاملات پر جو آثار مرتب ہونے والے ہیں اور قیامت میں ان پر عذاب وثواب ہونے والا ہے وہ سب باقی رہنے والے ہیں ، فنا ہوجانے والے حالات ومعاملات کی دھن میں لگا رہنا اور اپنی زندگی اور اس کی توانائی کو اس کی فکر میں لگا کر دائمی عذاب وثواب سے غفلت برتنا کسی ذی عقل کا کام نہیں بلکہ یہ سراسر بیوقوفی ہے ۔ ” اور جو لوگ ثابت قدم رہے ہم ان کا اجر انہیں ضرور دے کر رہیں گے جو کچھ وہ اچھے کام کر رہے ہیں اس کے عوض میں “ ترہیب و تخویف کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ترغیب وتشویق سے بھی کام لیتا رہتا ہے اور ہر نیکو کار کو جنت کا مشتاق کس طرح بناتا رہتا ہے ، صبر کرنے والے کون ہیں ؟ وہی جو احکام دین پر قائم وثابت قدم رہے اور اس کے لئے ہر کڑی سے کڑی آزمائش کو جھیل گئے اور صیغہ مخاطب سے صیغہ غائب کی طرف دفعتا انتقال عربی کے مشہور ومعروف اسلوب بلاغت ‘ طریق التفات کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے فئے صیغہ واحد یا جمع متکلم کا استعمال بھی عام بات صرف اشارتا ذکر کی گئی ہے تاکہ یاد رہے اور وقت پر کام آئے ۔
Top